جمعرات، 20 اپریل، 2023

موجود ہ سیاسی بحران اور سراج الحق کی ثالثی

0 Comments

 






       

      

   تحریر: محمد طارق خان 


            امیر  جماعت اسلامی محترم سراج الحق کا حکومت اور عمران خان کے مابین انتخاب کے معاملے پر ثالثی کی کوشش خوش آئند ہے, اور بات انفرادی ملاقاتوں سے کل جماعتی کانفرنس تک پہنچ گئی ہے، تمام تر اختلاف کے باوجود پاکستان کا ہر بچہ بوڑھا جوان اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ جماعت اسلامی ایک انتہائی منظم، جمہوری اور قابل افراد پر مشتمل جماعت  ہے، اور سپریم کورٹ سے لے کر پان والے تک سب اس بات کے بھی معترف ہیں کہ جماعت اسلامی کی قیادت کرپشن سے پاک اور دیانت دار لوگوں کے ہاتھ میں ہے، جماعت اپنی پالیسیاں مشاورت سے ترتیب دیتی ہے اور امیر  جماعت بالعموم شوریٰ کی پالیسی ہی کو آگے بڑھاتا ہے، امیر کے اپنے صوابدیدی اختیارات محدود ہوتے ہیں اور دوسری جماعتوں کی طرح یہاں فرد واحد کی کوئی اہمیت یا اجارہ داری نہیں ہوتی۔ اس لئے امید کی جاسکتی ہے کہ سراج الحق یعنی جماعت اسلامی کی ملک کو گھمبیر آئینی و سیاسی بحران سے نکالنے کی کوششیں بار آور ہوں گی اور اجر و ثواب کے علاؤہ جماعت کو ان کوششوں کا سیاسی فائدہ اور مطلوبہ اہداف بھی حاصل ہوں گے۔ تاہم کیا ثالثی کی یہ کوششیں نتیجہ خیز ہوں گی اور حکومت و عمران بات چیت کے ذریعہ کوئی حل نکال سکیں گے؟ اس کا کوئی سادہ، آسان یا فارمولا جواب دینا ممکن نہیں۔


ہر چند کہ بطور مسلمان ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ کسی بھی کوشش کی کامیابی یا ناکامی، بالفاظ دیگر انجام کار اللہ کے ہاتھ میں ہے، انسان کا کام کوشش کرنا ہے۔ اور سراج الحق کے خلوص، نیت اور کوشش پر کوئی اشکال نہیں، نہ ہی جماعت کی صلاحیت اور دیانت پر کوئی سوال ہے، اور یہ کہ انہیں بھی دوسری جماعتوں کی طرح سیاست کی بساط پر چال چلنے کا پورا حق ہے، تاہم عمران کا بات چیت کے لیے بیٹھنا اور مذاکرات کی کامیابی فی الحال  مشکل لگتا ہے، اور اس کی دو اہم وجوہات ہیں ۔۔۔ 


پہلی وجہ تو خود عمران خان ہے، عمران بذات خود ایک مسئلہ ہے اور  کسی بھی مسئلے کے حل میں سب سے بڑی رکاوٹ عمران کی انا، خود غرضی اور نرگسیت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عمران بذات خود کسی مذاکراتی عمل میں براہ راست کبھی شریک نہیں ہوگا، نہ ہی وزیراعظم کے پاس جائے گا، اس کا واضح موقف ہے کہ وہ چوروں کے ساتھ کبھی نہیں بیٹھے گا اور یہ شاید اس کا واحد موقف ہے جس پر وہ کافی عرصے سے قائم ہے، اس نے کبھی مخالفین سے بات چیت کا دروازہ کھولا بھی تو دوسرے درجے کی قیادت کے ذریعے مذاکرات کئے اور ایسے مذاکرات کا مقصد بھی بالعموم مہلت حاصل کرنا ہوتا ہے، اس لئے اسد عمر، شاہ محمود، پرویز خٹک وغیرہ کے ذریعے مذاکرات کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔ تجربہ بتاتا ہے کہ یہ لوگ مذاکرات کی میز پر جو کچھ تسلیم کرکے عمران کے پاس جاتے ہیں، عمران اسے یکسر مسترد کرکے مطالبات کی ایک نئی ناقابل عمل فہرست سامنے رکھ دیتا ہے، یہی وجہ ہے کہ عمران مذاکرات کے معاملے میں انتہائی ناقابل اعتماد شخص ہے۔


اور ایسا کرنے کی وجہ بھی عمران کی وہ خود پسندی، گھمنڈ اور مطلق العنانیت ہے جس کا تقاضا ہے کہ وہ ایسی کسی بات کو قبول ہی نہ کرے جس کا فیصلہ کسی اور نے کیا ہو، یا کوئی اور کامیاب نظر آتا ہو یا کوئی دوسرا کامیابی کا کریڈٹ لے سکے، وہ اپنی ذات کے مقابلے میں سب کو صفر رکھنا چاہتا ہے، بالخصوص اپنی پارٹی کے اندر۔ 


وہ ایسا اس لئے بھی کرتا ہے کہ کسی بھی دن یہ کہہ کر مکر جائے، یو ٹرن لے لے، کہ یہ میرا فیصلہ ہی نہیں تھا، اور ناکامی کی صورت کسی دوسرے کو مورد الزام ٹھہرا کر خود بری الذمہ ہو جائے۔ جبکہ پی ڈی ایم فیصلہ کن مذاکرات میں عمران کی ذاتی شرکت کا مطالبہ کرسکتی ہے، جو کہ عمران کے ٹریک ریکارڈ کو سامنے رکھتے ہوئے ممکن نہیں لگتا۔


دوسرا فیکٹر مولانا فضل الرحمن ہیں، عمران خان کے بعد ان کی سب سے بڑی مسابقت جماعت اسلامی سے ہے، گزشتہ کچھ مہینوں میں کے پی اور بلوچستان میں جے یو آئی اے تعلق رکھنے والے متعدد علماء اور معروف کارکن جے یو آئی چھوڑ کر جماعت اسلامی میں شامل ہوئے ہیں، ویسے بھی دونوں کا حلقہ اثر سنی مسلمانوں (فضل الرحمن کا مکمل دیوبندی جبکہ جماعت کا اکثریتی دیوبندی) پر مشتمل ہے, فضل الرحمن کسی ایسی کوشش کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے جس کے نتیجے میں سراج الحق کو اضافی نمبر مل جائیں، لہذا وہ سراج الحق کی مصالحتی تگ و دو کو ثبوتاژ کرنے کی بھرپور سعی کریں گے۔


اور پھر عمران خان کے بارے میں بھی مولانا کا رویہ انتہائی غیر لچکدار ہے، کیوں کہ عمران کا حلقہ اثر بھی بالعموم وہی ہے جو مولانا کا ہے ( یعنی کے پی، پٹھان، سنی مسلمان)، یہی وجہ ہے کہ مولانا نے روز اول سے عمران کے خلاف انتہائی سخت اور جارحانہ رویہ اپنا رکھا ہے، مولانا اپنے سخت رویئے ہی کی وجہ سے اپنے حلقہ اثر کو سونامی کی تباہ کاریوں سے بچانے میں کسی حد تک کامیاب رہے ہیں، اس کے برعکس جماعت اسلامی کے عمران کے بارے میں قاضی حسین احمد سے آج تک نرم اور بڑی حد تک تذبذب کے شکار رویے کی وجہ سے عمران کا سونامی جماعت اسلامی کے بیرونی حلقہ اثر کو بہا لے گیا ہے، مولانا کی طرف سے کسی لچک کا امکان ہی نہیں کیوں کہ ایسی لچک ان کے اصولی موقف سے روگردانی متصور ہوگی اور ان کے ووٹ بینک کو متاثر کرسکتی ہے، جس کا فائدہ براہ راست جماعت اور پی ٹی آئی دونوں کو ہو سکتا ہے۔


اس لئے جہاں سراج الحق کی ثالثی کی کوششیں خوش آئند ہیں، وہیں ہمیں ان اس مساعی کی کامیابی کے بارے میں کوئی خوش فہمی بھی نہیں۔ البتہ اللہ مقلب القلوب، مسبب الاسباب اور عاقب الامور ہے، اور ہم عالم الغیب نہیں ہیں۔ 


وما علینا الاالبلاغ المبین

0 Comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔