بلاگ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
بلاگ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

اتوار، 30 اپریل، 2023

لکھنا منع ہے۔۔۔۔۔۔ تحریر : شبیر احمد ارمان

0 Comments




                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                    

محمد رفیق بلوچ 12جون 1958کو لیاری، کراچی میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم باغ ہالار سکینڈری اسکول، نشتر روڈ، کراچی سے حاصل کی۔ میٹرک فرسٹ ڈویژن اور انٹرمیڈیٹ سیکنڈ ڈویژن میں کراچی بورڈ سے اور بی۔ اے سیکنڈ ڈویژن کراچی یونیورسٹی سے پاس کیے۔رفیق بلوچ نے21 سال کی عمر میں سرکاری محکمہ ٹیلیگراف اینڈ ٹیلیفون (موجودہ پاکستان ٹیلی کیمونیکیشن کارپوریشن لیمٹڈ) میں ملازمت کی۔ آپ رات کو ڈیوٹی کرتے اور دن کو تعلیم حاصل کرتے۔ 1983 میں آپ بینک میں بھرتی ہوئے۔ دورانِ ملازمت آپ نے اپنی تعلیم جاری رکھی اور 1990 میں بینکنگ سے متعلق ڈپلومہ ایسوسی ایٹ انسٹیٹیوٹ آف بینکرز اِن پاکستان (ڈی۔اے۔آئی بی پی) کی ڈگری حاصل کی اور 2008 میں ایم بی اے کیا۔

منیجر آڈٹ کے عہدے سے 2017 میں ریٹائر ہوگئے۔ رفیق بلوچ علم دوست، روشن خیال سماجی کارکن ہیں، علاقے میں لڑکے اور لڑکیوں کی فروغ تعلیم اور ان کی فلاح و بہبود کے لیے نمایاں خدمات انجام دی ہیں۔ وہ ایک عرصے سے انجمن اصلاحِ نوجوانان، شیروک لین، کلاکوٹ لیاری کے صدر بھی ہیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد کتاب لکھنے کی طرف متوجہ ہوئے حال ہی میں طنز و مزاح پر مبنی ان کی پہلی کتاب ”لکھنا منع ہے“ منظر عام پر آئی ہے۔ اس کتاب میں چھوٹے چھوٹے مزاحیہ مضامین کے ذریعے قارئین کو محظوظ کیا ہے۔مصنف لکھتے ہیں کہ ”ایک مرتبہ کونسلر کے الیکشن میں حصہ لیا، ضمانت ضبط ہوگئی، گھر والوں نے بھی ووٹ نہیں دیا، محلے کی انجمن کے کرتا دھرتاو?ں کو رشوت دے کر انجمن کا صدر تو بن گیا مگر انجمن کے 90فیصد اراکین نے اپنا نام انجمن سے خارج کروا دیا، جس سبب انجمن بند کرنا پڑی، مشہور ہونے کے شوق میں علاقے کے فٹبال کلب کا جنرل سیکریٹری بن گیا لیکن ٹیم بغیر کوئی میچ کھیلے تحلیل ہوگئی، ان تمام کوششوں کی ناکامی کے بعد دل میں خیال آیا کہ لکھنے سے بھی لوگ مشہور ہوجاتے ہیں، ان کی طرح مجھے بھی کوئی نہ کوئی ایوارڈ ملے گا تو میں بھی مشہور ہو جاو?ں گا۔ مرزا غالب کی فاقہ مستی تو رنگ نہ لاسکی مگر آج انھی کی غزلیں گا گا کر لوگ کروڑ پتی بن گئے ہیں، مجھے بھی یہی گمان ہے کہ بعد میرے مرنے کے میری کتاب کی کمائی سے دوسرے لوگ عیش کریں گے، فی الحال تو اسے چھپوانے کے پیسے بھی مجھے اپنے پلے سے ادا کرنے پڑ رہے ہیں۔“قارئین کی دلچسپی کے لیے یہاں کتاب کے کچھ اقتباسات پیش کیے جارہے ہیں۔

 ”کتا نامہ“ میں مصنف نے لکھا ہے کہ کچھ خواتین ان کتوں کو اپنے شوہروں پر بھی فوقیت دیتی ہیں، شوہر نامدار برآمدے میں اور کتا ان کے ساتھ بستر پر سوتا ہے، غریب ممالک کے انسان ان کتوں کی پرآسائش زندگی پر رشک کرتے ہیں اور آرزو کرتے ہیں کہ کاش! وہ ایک کتا ہی ہوتے تو بہتر تھا۔ اس موقع پر ایک دل جلے شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ:کتے کو لے کر سیٹھ کی گاڑی چلی گئیاور راہ پہ کھڑا معذور مرگیا۔ایک قبیح عادت جو اکثر کتوں میں پائی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ ایک دوسرے کے جسم میں نہ جانے کیا سونگھتے پھرتے ہیں۔ شیخ چلی کے عنوان سے مضمون میں مصنف لکھتے ہیں کہ ”شاید چلی میاں پہلے بلوچوں کے محلے میں رہتے ہوں گے کیونکہ بلوچی زبان میں چلی ایک میلے کچیلے آدمی کو کہتے ہیں، ممکن ہے کہ چلی میاں بچپن میں گندگی سے نہایت شغف رکھتے ہوں جس کی وجہ سے اس کا نام چلی پڑگیا ہو۔

“سوشل انارکی نامی مضمون میں لکھا ہے کہ ”ویک اینڈ کی رات ہے اور ہے دھرنا تیرا، بد دعا دے رہے ہیں لوگ ٹریفک جام کو۔ جو جی میں آئے کرلو تمھیں آزادی ہے، بند کردو راستے آج میری شادی ہے۔“لکھنا منع ہے، مضمون میں لکھا ہے کہ ”ایک شخص نے اپنے مکان پر خرچہ کر کے رنگ و روغن کروایا،کچھ دنوں بعد کسی لکھنے والے نے دیوار پر لکھا، دیوار پر لکھنا منع ہے۔ اگلے دن کسی اور لکھاری نے کچھ اس طرح طبع آزمائی کی، اگر دیوار پر لکھنا منع ہے تو پھر آپ نے کیوں لکھا؟ جب پہلے لکھنے والی کی نظر اس تحریر پر پڑی تو اس سے رہا نہ گیا اور انھوں نے اس بدتمیز انسان کو جواب دینا ضروری سمجھا وہ بھی اس طرح ”ارے نادان انسان! میں نے تو لوگوں کو سمجھانے کے لیے دیوار پر لکھا تھا کہ دیوار پر لکھ کر اسے گندہ نہ کریں۔“

کچھ دنوں بعد ایک تیسرا شخص میدان عمل میں کود پڑا اور اس نے اپنے خیالات کا اظہار کچھ اس طرح سے کیا، ”کیا مذاق ہے آپ لوگوں نے لکھ لکھ کر دیوارکا ستیاناس کردیا ہے“ اور واقعی اس وقت تک دیوار کا ستیا ناس ہوچکا تھا۔مصنف گدھوں کی بڑھتی ہوئی آبادی، میں لکھتے ہیں کہ دنیا میں گدھوں کی دو قسمیں پائی جاتی ہیں یعنی ظاہری گدھے (وہ گدھے جو شکل وصورت، جسمانی ساخت اور قد و قامت کے لحاظ سے گدھے کہلاتے ہیں، ان گدھوں کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ ڈھینچو ڈھینچو کرتے ہیں) یا باطنی گدھے (یہ گدھوں کی وہ قسم ہے جو شکل و صورت سے تو گدھے نہیں لگتے، مگر اپنے عقل و فہم، عادات و اطوار اور چال و چلن کی وجہ سے گدھے مانے جاتے ہیں۔ اس طرح کے گدھے بھی ڈھینچو ڈھینچو کرتے ہیں، لیکن لوگوں کو محسوس نہیں ہوتا۔


الغرض یہ کہ کتاب، لکھنا منع ہے، کے عنوان سے یہ مراد نہیں ہے کہ کسی بھی قسم کی تحریر یا عبارت لکھنے سے منع ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ دوسرے لوگوں کے درودیوار پر لکھ کر انھیں خراب کرنا منع ہے۔ کتاب میں بہ ظاہر چھوٹے چھوٹے مگر حقیقتا بڑے بڑے معاشرتی مسائل کو عمدہ انداز میں ضبط تحریر میں لانے کی بھر پورکوشش کی گئی ہے۔ جس طرح ماضی میں پی ٹی وی کے ڈراموں الف نون، ففٹی ففٹی اور انور مقصود بشمول معین اختر کے پروگراموں میں پیش کیے جاتے تھے۔


مصنف کے لیے میری تجویز ہے کہ وہ ان مضامین کو خاکوں کی صورت میں لکھیں تو عین ممکن ہے کہ یہ خاکے کسی ٹی وی چینل کے لیے منتخب کیے جاسکیں۔ اس طرح مصنف راتوں رات مشہور رائٹر بن سکتے ہیں ورنہ دیگر اور مصنفین کی طرح ان کی کتاب بھی ریگل چوک کے فٹ پاتھ کی زینت بن سکتی ہے،کیونکہ کتاب بینی کی جگہ ڈیجیٹل میڈیا نے لے لی ہے جو بدقسمتی کی بات ہے۔ بہرکیف کتاب”لکھنا منع ہے“ پرآشوب دور میں مرجھائے ہوئے چہروں پر مسکراہٹ لانے کی ایک اچھی کوشش ہے۔

shabbirarman@yahoo.com

پیر، 24 اپریل، 2023

کراچی میں برطانوی نوآبادیاتی فن تعمیر کا جوہر یگانہ۔۔۔۔۔۔ تحریر : محمد طارق خان

0 Comments

  

 میولز مینشن، منوڑہ جانے والی کشتیوں کی جیٹی کے قریب

 کیماڑی کے علاقے میں واقع یہ عمارت بلا شبہہ کراچی میں 

برطانوی وکٹورین عہد کی عمارتوں میں ایک عظیم ترین عمارت

 ہے، اس کا سنگ بنیاد 1885 میں رکھا گیا اور 1917 میں

 اس کا باقاعدہ افتتاح کیا گیا۔ 


اس کی زمینی منزل پر جہاز رانی کے سامان کے گودام اور ورکشاپس

 تھے، جبکہ پہلی اور دوسری منزلوں پر سمندری ملاحوں کے ہاسٹل اور

 تفریح طبع کے لئے برطانوی پب اسٹائل کا ایک شراب خانہ بھی تھا۔


عمارت کے سامنے مرکزی شاہراہ ںسے دیکھنے پر یہ ایک ہی عمارت 

دکھائی دیتی ہے، تاہم یہ آٹھ الگ الگ تین منزلہ عمارت پر مشتمل ایک

 مستطیل نما مجموعہ ہے جس کی ہر عمارت دوسری عمارات سے جڑی مگر

 مکمل طور پر آزادانہ وجود رکھتی ہے۔ مرکزی سڑک نیپیئر مول بوٹنگ 

وہارف روڈ یعنی مغربی سمت چار عمارتیں ہیں، جبکہ شمال کی سمت میں

 ایک، مشرقی بازو میں دو (جن میں سے ایک کو موجودہ مالکان نے 1990 

کے دہائی میں مخدوش قرار دے کر منہدم کردیا تھا)، اور جنوبی سمت میں

 سمندر کو رخ کرتی ایک عمارت ہے۔ شمالی جانب سے واحد مرکزی داخلہ

 دروازہ ہے جس سے گاڑیاں عمارات کے بیچوں بیچ واقع کھلے میدان میں

 آسکتی ہیں۔


پوری عمارت خوبصورتی سے برابر تراشیدہ پتھروں سے بنائی گئی ہے،

 جنہیں جوڑنے کا اس دور کے مروجہ مواد چونے کا استعمال کیا گیا ہے، 

دیواروں کی موٹائی دو فٹ سے زائد ہے۔ 


پوری عمارت میں فراخدلی سے لوہے اور مضبوط لکڑی کا انتہائی نفیس

 استعمال کیا گیا ہے، بالائی منزلوں پر کمروں کی چھت کم از کم 16 فٹ

 اونچی ہے، کھڑکیاں آٹھ فٹ اونچی اور 4 فٹ چوڑی جبکہ اور دروازے

 تقریبا دس فٹ اونچے اور آٹھ فٹ چوڑے ہیں۔ دروازوں اور کھڑکیوں 

میں جو لکڑی استعمال کی گئی ہے وہ اتنی مضبوط ہے اتنی مضبوط کہ سو سال سے

 زائد گزرنے کے باوجود نہ دیمک لگا نہ موسمیاتی اثرات سے کوئی نقصان

 پہنچا ہے، اور آج کل بازار میں ملنے والی عام کیل اس لکڑی میں ٹھوکی بھی

 نہیں جاسکتی۔ چھت میں لوہے کے بھاری بھرکم گاڈرز یا شہتیروں پر مضبوط 

لکڑی کی پرت بچھائی گئی ہے، اسی لکڑی کے بنے فرش پر بعد ازاں سیمنٹ کی 

دبیز تہہ ڈالی گئی۔ جبکہ زمینی منرل کی اونچائی کم و بیش چوبیس فٹ اور دروازوں

 کی بلندی بارہ سے چودہ فٹ ہے۔جنونی سمت مرکزی داخلی دروازہ کم و بیش 

20 فٹ اونچا ہوگا۔


عمارت کے جنوبی حصہ میں تیسری منزل کے جنوب مغربی کونے پر، جیسا کہ تصویر

 میں دیکھا جا سکتا ہے، تاج نما رصد گاہ ہے جہاں دو سے تین لوگوں کے بیٹھنے کے

 لئے پتھر کی نشست لگائی گئی تھی، اس رصد گاہ سے بلڈنگ کے اصل مالکان جو ایک

 جہاز ران کمپنی کے مالک بھی تھے، کراچی بندرگاہ میں داخل ہونے والے جہازوں

 کا نظارہ کرتے تھے۔ یہ رصد گاہ اب بھی موجود ہے مگر زینے اور چھت کی مخدوش 

حالت کی وجہ سے اس رصد گاہ میں داخل ہونا انتہائی خطرناک ہے۔ 


موجودہ مالکان کی عدم دلچسپی اور دیکھ بھال کی کمی کے باعث اس

 پر شکوہ عمارت کی شان ماند پڑ گئی ہے۔ لال مٹی کے کھپریل سے

 بنی چھت اور وکٹورین طرز کے لوہے سے بنے زینے جا بجا ٹوٹ

 پھوٹ کا شکار ہو چکے ہیں۔ کچھ بالکنیاں اور اندرونی راہداریاں

 بھی مخدوش ہو گر گئی ہیں، جبکہ بیرونی دیوار کے پتھر کا دودھیا خاکی

 رنگ گاڑیوں اور جہاز کے انجن کے دھویں اور بندرگاہ پر پر اترنے

 والے کوئلے کی کثافت سے تبدیل ہو کر سیاہی مائل ہو گیا ہے۔


1947 میں پاکستان کی آزادی کے بعد، عمارت کے میں قائم ہوسٹل

 اور شراب خانے یا بار کو رہائشی فلیٹس میں تبدیل کر دیا گیا، جہاں ہندوستان

 سے ہجرت کرنے والے کئی خاندانوں کو پناہ ملی، ان ہی میں سے ایک

 مشہور شاعر، مصنف اور بعد ازاں کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر پیرزادہ 

قاسم کا خاندان بھی تھا، جو مرکزی شاہراہ یا مغربی سمت میں واقع تیسری عمارت

 کی پہلی منزل پر 1990 کی دہائی تک مقیم رہے۔ 


ان کے علاوہ اس عمارت میں زیادہ تر وہ خاندان رہائش پذیر ہوئے جن کسی

 فرد نے عمارت کے مالکان کی نجی جہاز ران کمپنی میں ملازمت اختیار کر لی تھی۔

 ان میں سے ایک خاندان ایک ناخدا یا کپتان کا بھی تھا۔ ان کے علاو¿ہ ایک

 کسٹم آفیسر، اور کراچی پورٹ ٹرسٹ کے ایک افسر (میرے والد) بھی 1950

 کے دہائی میں یہاں منتقل ہوئے، جنوبی سمت میں سمندر کے رخ پر واحد عمارت کی

 پہلی منزل پر رہتے تھے، 1976 سے میری ابتدائی زندگی کے بائیس برس اسے عمارت

 میں گزرے۔


یہ عمارت کراچی کی عظمت رفتہ کا نشان ہے، جو عدم توجہی کے باعث

 تباہی کے دہانے پر ہے، حکومت اور کراچی کی بحالی کا کام کرنے

 والے اداروں کی ذرہ سے توجہ سے اس عمارات کی شان بحال اور

 اسے آنے والی نسلوں کے لئے محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔ 





ہفتہ، 22 اپریل، 2023

اساتذہ کی غیر متعلقہ ذمے داریاں اور نتائج.............. تحریر: زین الملوک

1 Comments

 

اساتذہ کو کسی بھی قوم کی ریڑھ کی ہڈی سمجھا جاتا ہے، کیوں کہ وہ ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ وہ نوجوان نسل کے ذہنوں کو تشکیل دینے، علم و ہنر سکھانے کے ذمے دار ہیں، جن کی انھیں زندگی میں کامیابی کےلیے ضرورت ہے۔ تاہم پاکستان میں اساتذہ کو اکثر ایسے فرائض انجام دینے کےلیے کہا جاتا ہے جن کا ان کے پیشے سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ یہ بھاری بوجھ ان کی تدریس سے متعلقہ صلاحیت کو کم کرتا ہے، اور ان کی فراہم کردہ تعلیم کے معیار کو متاثر کرتا ہے۔

اساتذہ کو بہت سے ایسے غیر متعلقہ فرائض بھی سونپ دیے جاتے ہیں جو ان کے بنیادی کام یعنی ’تدریس‘ سے کہیں دور ہوتے ہیں، ان کا قیمتی تدریسی وقت ان کاموں میں لگا کر تعلیم کے معیار کو متاثر کیا جاتا ہے بلکہ ان غیر متعلقہ کاموں کو انجام نہ دینے پر شوکاز نوٹس جاری کرکے جواب طلبی بھی ہوتی ہے۔ اس کے برعکس ان اساتذہ کی تدریس میں غفلت، معیار میں کمی اور بے جا غیر حاضری پر کبھی بھی جواب طلبی نہیں ہوتی۔ اساتذہ یہ توقع رکھتے ہیں کہ ان کے اصل فرائض کی کوتاہی کی وجہ سے انھیں بے شک شوکاز نوٹس جاری کیا جائے لیکن دوسرے امور کی انجام دہی کےلیے انھیں مجبور نہ کیا جائے۔ اساتذہ کے وہ فرائض جو ان کے پیشے سے متعلق نہیں ہیں، درج ذیل ہیں۔


الیکشن کی ڈیوٹی

الیکشن سیزن کے دوران اساتذہ کو اکثر پولنگ اسٹیشنوں پر پولنگ آفیسرز یا پریزائیڈنگ آفیسر جیسی ڈیوٹی انجام دینے کو کہا جاتا ہے۔ ماشا اللہ پاکستان میں صوبائی، قومی اسمبلی کے انتخابات، بلدیاتی انتخابات اور ضمنی انتخابات کا سیزن اکثر ا?تا رہتا ہے، جس میں اساتذہ کا بہت وقت ضائع ہوتا ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے مضمون جس پر عبور رکھتے ہیں، اور تدریس سے دور ہوجاتے ہیں۔



قومی مردم شماری

اساتذہ کو قومی مردم شماری میں مدد کےلیے بھی بلایا جاتا ہے، جس کےلیے انھیں گھر گھر جاکر ڈیٹا اکٹھا کرنا پڑتا ہے۔ مردم شماری والا کام کئی ہفتوں یا مہینوں پر محیط ہوتا ہے۔ اس کام کی وجہ سے اساتذہ کا کافی وقت صرف ہوتا ہے۔

 

پولیو کے خاتمے کے فرائض

بدقسمتی سے پاکستان ابھی تک پولیو سے باہر نہیں ا?سکا۔ اساتذہ کو اکثر پولیو کے خاتمے کی مہم میں حصہ لینے کےلیے کہا جاتا ہے، جس کےلیے ان سے بچوں کو قطرے پلانے اور ویکسی نیشن کی اہمیت کے بارے میں آگاہی پھیلانے کی ڈیوٹی لی جاتی ہے۔ اگرچہ یہ ایک اہم اقدام ہے، لیکن یہ اضافی کام تعلیم کے معیار کو بری طرح متاثر کرتا ہے۔

 

قدرتی ا?فات سے متعلق امدادی کام

قدرتی آفات، جیسے زلزلہ اور سیلاب کے دوران، اساتذہ کو اکثر امدادی کاموں میں مدد کےلیے بلایا جاتا ہے۔ سماجی لحاظ سے یہ کارِخیر اور اہم اقدام ہیں، لیکن اس سے تدریسی عملے کا بے تحاشا وقت ضائع ہوتا ہے اور بچوں کی تعلیم و تربیت میں بہت خلل پڑتا ہے۔


انسداد ڈینگی مہم

اساتذہ کو اکثر انسداد ڈینگی مہم میں حصہ لینے کےلیے کہا جاتا ہے، جس کےلیے انھیں اپنے اردگرد کی صفائی اور ڈینگی بخار کے بارے میں آگاہی پھیلانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارے ملک کے حوالے سے یہ ایک اہم اقدام ہے لیکن اس سے تعلیمی اہداف کے حصول میں رکاوٹ اور قیمتی تدریسی وقت کا بے دریغ ضیاع ہوتا ہے۔

 

عوامی تقریبات

کچھ اساتذہ کے مطابق بعض اوقات انھیں عوامی تقریبات جیسے پریڈ، ریلیوں، جلسوں اور مارچ وغیرہ میں شرکت کرنے کا حکم ملتا ہے۔ اگرچہ یہ واقعات سماجی مقاصد یا قومی واقعات کو فروغ دینے کےلیے اہم ہوسکتے ہیں، لیکن ان میں اسکولوں اور اساتذہ کا کافی وقت مفت میں ضائع ہوتا ہے اور یوں تعلیم کا معیار ناقص سے ناقص تر ہوتا ہے۔

 

زراعت کا کام

دیہی علاقوں میں اساتذہ کو بعض اوقات زرعی کاموں میں مدد کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، جیسے فصلوں کی کٹائی، فصلیں لگانا یا فصلوں کو پانی دینا وغیرہ۔ اگرچہ یہ مقامی کمیونٹی اور کچھ زمین داروں کےلیے بہت اہم ہوسکتا ہے، لیکن اس کا شعبہ تعلیم و تدریس سے کوئی تعلق نہیں۔


غیر متعلقہ کاموں کے نتائج

اساتذہ کو غیر متعلقہ کام تفویض کرنے کے عمل کے کئی منفی نتائج نکلتے ہیں۔ سب سے پہلے، اس سے اساتذہ کو پڑھانے پر توجہ دینے کا وقت کم ہوجاتا ہے۔ اضافی کام اساتذہ کی تدریس کے معیار کو متاثر کرتا ہے، کیوں کہ وہ اپنے طلبا پر پوری توجہ نہیں دے پاتے۔

دوسرا، یہ اساتذہ کے درمیان کشیدگی اور حسد کا باعث بنتا ہے۔ کچھ اساتذہ کو غیر متعلقہ کام تفویض کرنا ان کے کام کا بوجھ بڑھاتا ہے، جس کی وجہ سے وہ لمبے وقت تک کام کرتے ہیں اور اپنی ذاتی زندگی کو نظرانداز کرتے ہیں۔ جب کہ کچھ اور علاقوں کے اساتذہ کو جب ایسے غیر متعلقہ کاموں سے دور رکھا جاتا ہے تو یہ اساتذہ کے درمیان کشیدگی اور حسد کا باعث بنتا ہے۔ نیز یہ تناوکے ساتھ ملازمت کے اطمینان میں کمی کا باعث بن سکتا ہے۔

تیسرا، یہ اساتذہ کی برقراری کی شرح کو متاثر کرتا ہے۔ جب اساتذہ کو ایسے کام سونپے جاتے ہیں جن کا ان کے پیشے سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، تو وہ مایوس ہوسکتے ہیں اور روزگار کے دوسرے مواقع تلاش کرسکتے ہیں۔ اس سے قابل اساتذہ کی کمی ہوسکتی ہے جس کا ملک میں تعلیمی معیار پر طویل المدتی منفی اثر پڑسکتا ہے۔ کچھ دیہات میں اساتذہ تعینات تو ہوتے ہیں لیکن ایسے غیر متعلقہ کاموں کی وجہ سے ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ بڑے قصبوں یا شہروں میں اپنا تبادلہ کروائیں تاکہ وہ صرف تدریس پر اپنی توجہ مرکوز رکھ سکیں۔ اس سے دیہات کے طلبا کا نقصان ہوسکتا ہے۔

چوتھا، یہ اساتذہ کے حوصلے کو متاثر کرتا ہے۔ جب اساتذہ سے کہا جاتا ہے کہ وہ ایسے کام انجام دیں جن کا ان کے پیشے سے کوئی تعلق نہیں، تو وہ کم قدر اور بے عزتی محسوس کرسکتے ہیں۔ اس سے ان کے حوصلے میں کمی واقع ہوسکتی ہے جس سے ان کی کارکردگی پر منفی اثر پڑسکتا ہے۔اساتذہ کو غیر متعلقہ کام تفویض کرنے کے مسئلے کو قابو کرنے کے کئی طریقے ہیں۔


اضافی عملے کی خدمات حاصل کرنا

حکومت کو ایسے کاموں کو انجام دینے کےلیے اضافی عملے کی خدمات حاصل کرنے پر غور کرنا چاہیے جن کا تعلق تدریس سے نہیں ہے۔ اس سے اساتذہ پر بوجھ کم ہوجائے گا اور وہ اپنی تدریسی ذمے داریوں پر توجہ مرکوز کرسکیں گے۔


انتظامی کاموں کو کم کرنا

اسکولوں کو اساتذہ کو تفویض کردہ انتظامی کاموں کو کم کرنے پر غور کرنا چاہیے۔ کچھ انتظامی امور کلریکل اسٹاف بھی بجا لاسکتے ہیں۔ اس سے اساتذہ کو تدریس پر توجہ مرکوز کرنے اور تعلیم کے معیار کو بہتر بنانے میں مزید وقت ملے گا۔


عارضی عملے کی خدمات حاصل کرنا

 انتخابات اور مردم شماری جیسی سرگرمیوں کےلیے حکومت کو عارضی عملے کی خدمات حاصل کرنے پر غور کرنا چاہیے۔ ایسے عملے کو ٹریننگ دے کر مطلوبہ نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں۔


ملازمتی امور کی تفصیلات کی فراہمی

 حکومت کو اساتذہ کےلیے ملازمت کی واضح تفصیل فراہم کرنی چاہیے، جو واضح طور پر ان کی بنیادی ذمے داریوں کا خاکہ پیش کرے۔ یہ اس بات کو یقینی بنائے گا کہ اساتذہ کو غیر متعلقہ کام تفویض نہیں کیے گئے ہیں اور وہ اپنے بنیادی فرائض پر توجہ مرکوز کرسکتے ہیں۔


تربیت اور معاونت برائے تدریس

 حکومت کو اساتذہ کو تربیت اور مدد فراہم کرنی چاہیے تاکہ وہ ان کاموں کےلیے تیار ہوں جو انھیں تفویض کیے گئے ہیں۔ یہ اس بات کو یقینی بنائے گا کہ وہ اپنی تدریسی ذمے داریوں سے سمجھوتہ کیے بغیر ان کاموں کو مو¿ثر طریقے سے انجام دینے کے قابل ہیں۔


دیگر محکموں کے ساتھ تعاون

حکومت کو پولیو کے خاتمے کی مہم جیسے کاموں کا بوجھ بانٹنے کےلیے دیگر محکموں، جیسا کہ محکمہ صحت اور ضلعی انتظامیہ کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے تاکہ انسدادِ پولیو مہم بھی کامیاب ہو، اساتذہ پر بوجھ بھی کم ہو اور وہ پڑھانے پر توجہ دے سکیں۔

پاکستان میں اساتذہ کو غیر متعلقہ کام سونپنے کا رواج ایک اہم مسئلہ ہے، جو اساتذہ کے کام کے بوجھ میں اضافہ، ان کی تدریس کی بنیادی ذمے داریوں پر توجہ مرکوز کرنے کی صلاحیت، تعلیم کے معیار اور اساتذہ کے حوصلے کو متاثر کرتا ہے۔ اس مشق کے نتائج میں تناو تعلیم کا کم معیار اور قابل اساتذہ کی کمی شامل ہیں۔ اس مسئلے پر قابو پانے کےلیے حکومت کو اضافی عملے کی خدمات حاصل کرنے، انتظامی کاموں کو کم کرنے، مراعات فراہم کرنے، عارضی عملے کی خدمات حاصل کرنے، ملازمت کی واضح تفصیلات فراہم کرنے، تربیت اور مدد کی پیشکش، اور دیگر محکموں کے ساتھ تعاون پر غور کرنا چاہیے۔ اس مسئلے کو حل کرکے حکومت تعلیم کے معیار کو بہتر اور اس بات کو یقینی بناسکتی ہے کہ اساتذہ اپنی بنیادی ذمے داری ’تدریس‘ پر توجہ مرکوز رکھ سکیں۔

بلاگر ایم اے اردو (پشاور یونیورسٹی)، ایم اے سیاسیات (پشاور یونیورسٹی) اور ایم ایڈ (ا?غاخان یونیورسٹی، کراچی) ڈگری کے حامل ہیں۔ گزشتہ دو دہائیوں سے شعبہ? تعلیم اور ا?ج کل ا?غا خان یونیورسٹی ایگزامینیشن بورڈ، کراچی سے بطورِ منیجر ایگزامینیشن ڈیولپمنٹ وابستہ ہیں۔ ان سے ای میل zmuluka@gmail.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔




جمعہ، 21 اپریل، 2023

ہم لیاری والوں کی پھیکی عید!.......تحریر: شبیر احمد ارمان

0 Comments

    ماہ رمضان الوداع ہوگیا پھر بھی لیاری کے انسانوں کےبنیادی مسائل حل نہ ہوسکیں ۔ رمضان المبارک  کی بابرکت شب و روز مہنگائی،ناجائز منافع خوروں ،گیس بجلی اور پانی کے ناخداؤں کی نذر  ہوگۓ ۔ لیاری والوں نے ان مظالم پر بہت چیخا چلایا سڑکیں بند کردیں لیکن سب بے سود رہا ۔ہر شاخ پر الو بیٹھا ہے انجام گلستاں کیا ہوگا والی بات ہے ۔  

بچپن گزر گیا۔لڑکپن گزر گیا۔ نوجوانی گزر گئی۔ جوانی گزر گئی اور اب ادھیڑ عمر بھی گزر رہی ہے ۔ نسل در نسل مسائل منتقل ہورہے ہیں ۔لیکن لیاری کے انسانوں کے بنیادی مسائل حل نہیں ہوپارہے ہیں ؟یہ کیسی زمینی خداؤں کی خدائی ہے ؟تو ہی بتا اے خداگیس بند ۔بجلی بند ۔پانی بند۔ایسے میں عید کیسے منائیں؟

  ایسی پھیکی عید  کی مبارک بادیں  کیسے دیں ؟  ہماری مائیں بہنیں تو  اپنی پڑوسن سے یہ بھی نہیں کہہ سکتی کہ مبارک ہو بہن پائپ لائن میں پانی آگیاہے۔  مبارک ہو بجلی آگئ ہے ۔ مبارک ہو گیس آگیا ہے ۔ خدا غارت کرے ظالموں کوہم لیاری والوں کی عید کی خوشیاں بھی چھین لی گئیں ہیں ۔ 

لیاری والوں کی یہ داد و فریادیں ارباب اختیارات تک پہنچتی ہیں کہ نہیں لیکن عرش الٰہی تک پہنچ چکے ہیں اب وہی انصاف کرنے والا ہے ۔  شہر کے دیگر لوگ عید کی خوشیاں منانے کے لۓ پروگرام ترتیب دے رہے ہیں کہ کس طرح وہ اپنی ان خوشیوں کو دوبالا کریں گے جبکہ لیاری کے مکین اس فکر میں ہیں وہ نماز عید بغیر پانی کے کیسے ادا کریں گے؟ بچے بغیر نہاۓ کیسے نۓ کپڑے پہنے گے؟ بجلی کے بغیر کیسے کپڑے استری کریں گے؟ مائیں بہنیں سوچ رہی ہیں کہ پانی اور گیس کے بغیر کیسے چولہا جلائیں گے؟ کیسے میٹھی عید پر منہ میٹھا کریں گے؟ 

یہ میٹھی عید تو ان کے لۓ پھیکی ہوگئی ہے ۔ پانی کی تلاش میں سرگرداں لیاری کے مکینوں کا کوئی پرسان حال نہیں ۔ بجلی اور گیس کے ادارے لیاری پر ضرب کی کاٹیس لگا چکے ہیں ۔ یہ سہولیات لیاری والوں کے لۓ ناپید کردی گئ ہیں ۔ سچ پوچھو تو لیاری کو کراچی سے کاٹ دیا گیا ہے ۔ لیاری والوں کو کوئ انسان ماننے کو تیار نہیں ہے ۔

 لیاری کے جملہ مسائل اتنے ہیں کہ اگر ان کوبیان کیا جاۓ تو کہیں کتابیں مرتب ہوجائیگی مگر مسائل کا ذکر ختم نہیں ہوگا ۔ حکومتی سطح پر لیاری کو ترقیاتی پیکیج دیا گیا ہے سڑکیں تعمیر بھی ہورہی ہیں اور بھی ترقیاتی کاموں کا ذکر ہورہا ہے لیکن سر دست لیاری والوں کو جینے کے لۓ پینے کا پانی چاہیے ۔ زندہ رہنے کے لۓ کھانا چاہیے جو گیس کی عدم فراہمی کی صورت میں ناممکن ہوتا جارہا ہے ۔ سانس لینے کے لۓ بجلی چاہیے جو بند کردی گئی ہے ۔ 

لیاری کے لوگ بڑے سخت جان واقع ہوۓ ہیں اتنی بندشوں کے باجود  لیاری کے لوگ زندہ کیسے ہیں ؟ اسی سوال کا جواب کا غم ارباب اختیارات کو کھائ جارہی ہے ورنہ دیگر انھیں لیاری والوں کا کیا پرواہ ؟ان کی طرف سے لیاری والے جائیں بھاڑ میں انھیں تو صرف مال بٹورنا ہے سو وہ بٹور رہے ہیں ۔ خوف خدا کرو لیاری والوں کو پانی فراہم کرو ۔ گیس فراہم کرو۔ بجلی فراہم کرو تاکہ وہ بھی میٹھی عید میٹھی بناسکیں ۔یاپھر صاف صاف بتادو لیاری والوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کا پروگرام ہے تاکہ لیاری والے جینے کے لۓ نیا راستہ تلاش کریں "حد ہوگئی ہے ظلم کی" مقدس دنوں میں بھی رحم کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے ہیں  ۔لیاری والے اس وقت سخت ذہنی اذیت میں ہیں ۔ کوئی ہے جو ان کی تکالیف کو دور کرسکے؟

جمعرات، 20 اپریل، 2023

موجود ہ سیاسی بحران اور سراج الحق کی ثالثی

0 Comments

 






       

      

   تحریر: محمد طارق خان 


            امیر  جماعت اسلامی محترم سراج الحق کا حکومت اور عمران خان کے مابین انتخاب کے معاملے پر ثالثی کی کوشش خوش آئند ہے, اور بات انفرادی ملاقاتوں سے کل جماعتی کانفرنس تک پہنچ گئی ہے، تمام تر اختلاف کے باوجود پاکستان کا ہر بچہ بوڑھا جوان اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ جماعت اسلامی ایک انتہائی منظم، جمہوری اور قابل افراد پر مشتمل جماعت  ہے، اور سپریم کورٹ سے لے کر پان والے تک سب اس بات کے بھی معترف ہیں کہ جماعت اسلامی کی قیادت کرپشن سے پاک اور دیانت دار لوگوں کے ہاتھ میں ہے، جماعت اپنی پالیسیاں مشاورت سے ترتیب دیتی ہے اور امیر  جماعت بالعموم شوریٰ کی پالیسی ہی کو آگے بڑھاتا ہے، امیر کے اپنے صوابدیدی اختیارات محدود ہوتے ہیں اور دوسری جماعتوں کی طرح یہاں فرد واحد کی کوئی اہمیت یا اجارہ داری نہیں ہوتی۔ اس لئے امید کی جاسکتی ہے کہ سراج الحق یعنی جماعت اسلامی کی ملک کو گھمبیر آئینی و سیاسی بحران سے نکالنے کی کوششیں بار آور ہوں گی اور اجر و ثواب کے علاؤہ جماعت کو ان کوششوں کا سیاسی فائدہ اور مطلوبہ اہداف بھی حاصل ہوں گے۔ تاہم کیا ثالثی کی یہ کوششیں نتیجہ خیز ہوں گی اور حکومت و عمران بات چیت کے ذریعہ کوئی حل نکال سکیں گے؟ اس کا کوئی سادہ، آسان یا فارمولا جواب دینا ممکن نہیں۔


ہر چند کہ بطور مسلمان ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ کسی بھی کوشش کی کامیابی یا ناکامی، بالفاظ دیگر انجام کار اللہ کے ہاتھ میں ہے، انسان کا کام کوشش کرنا ہے۔ اور سراج الحق کے خلوص، نیت اور کوشش پر کوئی اشکال نہیں، نہ ہی جماعت کی صلاحیت اور دیانت پر کوئی سوال ہے، اور یہ کہ انہیں بھی دوسری جماعتوں کی طرح سیاست کی بساط پر چال چلنے کا پورا حق ہے، تاہم عمران کا بات چیت کے لیے بیٹھنا اور مذاکرات کی کامیابی فی الحال  مشکل لگتا ہے، اور اس کی دو اہم وجوہات ہیں ۔۔۔ 


پہلی وجہ تو خود عمران خان ہے، عمران بذات خود ایک مسئلہ ہے اور  کسی بھی مسئلے کے حل میں سب سے بڑی رکاوٹ عمران کی انا، خود غرضی اور نرگسیت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عمران بذات خود کسی مذاکراتی عمل میں براہ راست کبھی شریک نہیں ہوگا، نہ ہی وزیراعظم کے پاس جائے گا، اس کا واضح موقف ہے کہ وہ چوروں کے ساتھ کبھی نہیں بیٹھے گا اور یہ شاید اس کا واحد موقف ہے جس پر وہ کافی عرصے سے قائم ہے، اس نے کبھی مخالفین سے بات چیت کا دروازہ کھولا بھی تو دوسرے درجے کی قیادت کے ذریعے مذاکرات کئے اور ایسے مذاکرات کا مقصد بھی بالعموم مہلت حاصل کرنا ہوتا ہے، اس لئے اسد عمر، شاہ محمود، پرویز خٹک وغیرہ کے ذریعے مذاکرات کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔ تجربہ بتاتا ہے کہ یہ لوگ مذاکرات کی میز پر جو کچھ تسلیم کرکے عمران کے پاس جاتے ہیں، عمران اسے یکسر مسترد کرکے مطالبات کی ایک نئی ناقابل عمل فہرست سامنے رکھ دیتا ہے، یہی وجہ ہے کہ عمران مذاکرات کے معاملے میں انتہائی ناقابل اعتماد شخص ہے۔


اور ایسا کرنے کی وجہ بھی عمران کی وہ خود پسندی، گھمنڈ اور مطلق العنانیت ہے جس کا تقاضا ہے کہ وہ ایسی کسی بات کو قبول ہی نہ کرے جس کا فیصلہ کسی اور نے کیا ہو، یا کوئی اور کامیاب نظر آتا ہو یا کوئی دوسرا کامیابی کا کریڈٹ لے سکے، وہ اپنی ذات کے مقابلے میں سب کو صفر رکھنا چاہتا ہے، بالخصوص اپنی پارٹی کے اندر۔ 


وہ ایسا اس لئے بھی کرتا ہے کہ کسی بھی دن یہ کہہ کر مکر جائے، یو ٹرن لے لے، کہ یہ میرا فیصلہ ہی نہیں تھا، اور ناکامی کی صورت کسی دوسرے کو مورد الزام ٹھہرا کر خود بری الذمہ ہو جائے۔ جبکہ پی ڈی ایم فیصلہ کن مذاکرات میں عمران کی ذاتی شرکت کا مطالبہ کرسکتی ہے، جو کہ عمران کے ٹریک ریکارڈ کو سامنے رکھتے ہوئے ممکن نہیں لگتا۔


دوسرا فیکٹر مولانا فضل الرحمن ہیں، عمران خان کے بعد ان کی سب سے بڑی مسابقت جماعت اسلامی سے ہے، گزشتہ کچھ مہینوں میں کے پی اور بلوچستان میں جے یو آئی اے تعلق رکھنے والے متعدد علماء اور معروف کارکن جے یو آئی چھوڑ کر جماعت اسلامی میں شامل ہوئے ہیں، ویسے بھی دونوں کا حلقہ اثر سنی مسلمانوں (فضل الرحمن کا مکمل دیوبندی جبکہ جماعت کا اکثریتی دیوبندی) پر مشتمل ہے, فضل الرحمن کسی ایسی کوشش کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے جس کے نتیجے میں سراج الحق کو اضافی نمبر مل جائیں، لہذا وہ سراج الحق کی مصالحتی تگ و دو کو ثبوتاژ کرنے کی بھرپور سعی کریں گے۔


اور پھر عمران خان کے بارے میں بھی مولانا کا رویہ انتہائی غیر لچکدار ہے، کیوں کہ عمران کا حلقہ اثر بھی بالعموم وہی ہے جو مولانا کا ہے ( یعنی کے پی، پٹھان، سنی مسلمان)، یہی وجہ ہے کہ مولانا نے روز اول سے عمران کے خلاف انتہائی سخت اور جارحانہ رویہ اپنا رکھا ہے، مولانا اپنے سخت رویئے ہی کی وجہ سے اپنے حلقہ اثر کو سونامی کی تباہ کاریوں سے بچانے میں کسی حد تک کامیاب رہے ہیں، اس کے برعکس جماعت اسلامی کے عمران کے بارے میں قاضی حسین احمد سے آج تک نرم اور بڑی حد تک تذبذب کے شکار رویے کی وجہ سے عمران کا سونامی جماعت اسلامی کے بیرونی حلقہ اثر کو بہا لے گیا ہے، مولانا کی طرف سے کسی لچک کا امکان ہی نہیں کیوں کہ ایسی لچک ان کے اصولی موقف سے روگردانی متصور ہوگی اور ان کے ووٹ بینک کو متاثر کرسکتی ہے، جس کا فائدہ براہ راست جماعت اور پی ٹی آئی دونوں کو ہو سکتا ہے۔


اس لئے جہاں سراج الحق کی ثالثی کی کوششیں خوش آئند ہیں، وہیں ہمیں ان اس مساعی کی کامیابی کے بارے میں کوئی خوش فہمی بھی نہیں۔ البتہ اللہ مقلب القلوب، مسبب الاسباب اور عاقب الامور ہے، اور ہم عالم الغیب نہیں ہیں۔ 


وما علینا الاالبلاغ المبین

سوالوں سے بندھے سوال ہیں فقط۔۔ حیدرجاوید سید

0 Comments






                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                 

 مجھے بھی حیرانی تھی کہ "صاحبان" پنجاب میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات

 کروانے میں اتنے "اتاولے" کیوں ہیں۔ پی ٹی آئی نے دو صوبائی اسمبلیاں

 ایک خاص حکمت عملی کے طور پر تحلیل کروائی تھیں۔ ازخود نوٹس کی

 سفارش کرنے والے "صاحبان" نے دو اسمبلیوں کے انتخابات کے

 معاملے پر ازخود نوٹس لینے کی سفارش کی تھی۔ پورا کیس دو اسمبلیوں کے

 انتخابات کے گرد گھومتا رہا۔ فیصلہ صرف پنجاب میں آئین کی پاسداری

 کے لئے آیا۔ خیبر پختونخوا میں آئین کی پاسداری کی ضرورت کیوں نہ

 محسوس کی گئی؟


ہم نے تواتر کے ساتھ یہ سوال اپنے پڑھنے والوں کے سامنے رکھا کہ جب

 دو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کا معاملہ دونوں صوبوں کی اعلیٰ عدالتوں

 (ہائیکورٹس) میں زیرسماعت تھا تو ازخود نوٹس کی سفارش اور نوٹس لیا جانا 

کیوں ضروری سمجھا گیا۔ہم اس بات پر بحث نہیں کرتے کہ اس کیس کی

 سماعت اور پھر عدالتی حکم کی خلاف ورزی کی درخواست کی سماعتوں

 کے دوران ماورائے قانون کیا باتیں ہوئیں۔ کیسے کیسے ریمارکس دیئے گئے

 اور پھر الیکشن کمیشن کے اختیارات بھی "صاحبان" نے سنبھال لئے۔


پنجاب کے لئے انتخابی شیڈول کے ساتھ بینک دولت آف پاکستان کو حکم

 دے دیا کہ 21ارب روپے الیکشن کمیشن کو دے دیئے جائیں۔ ان

 احکامات کا نتیجہ کیا نکلا۔ "صاحبان" کے فیصلے اور پارلیمنٹ کی قراردادوں

 نے دو اداروں کو ایک دوسرے کے سامنے لاکھڑا کیا۔اس صورتحال سے

 بچا جاسکتا تھا اگر اس بنیادی سوال پر غور کرلیا جاتا کہ جو معاملات ہائیکورٹ

 میں زیرسماعت تھے ان پر سپریم کورٹ نوٹس لے سکتی ہے؟ اصولی طورپر 

نہیں لے سکتی تھی کیونکہ محض صوبائی خودمختاری ہی نہیں بلکہ عدالتی نظام

 کا حفظ مراتب اور سماعتوں کا طے شدہ طریقہ کار بلڈوز کرنے سے پورے 

نظام کی بنیادیں ہل کر رہ جاتیں۔


آپ پچھلے دو تین ہفتوں سے لگے قانونی تماشوں پر غور کیجئے۔ ان تماشوں

 سے کیا ملا۔ کیا اچھا نہ ہوتا کہ شخصی اور خاندانی محبتوں پر نظام انصاف کو 

قربان نہ کیا جاتا۔ زیادہ اچھا ہوتا کہ اس ساری کھیچل سے بچ کر اس سوال

 پر غور کرلیا جاتا کہ کیا "کسی پیشگی سیاسی معاہدہ پر اسمبلی توڑی جاسکتی ہے؟"

 اور یہ کہ مردم شماری کے نتائج و نئی حلقہ بندیوں کے بغیر ایک یا دو صوبوں کی

 اسمبلیوں کے انتخابات مسائل کو جنم نہیں دیں گے؟


اب دوسری بات ذہن میں رکھئے انہی دو صوبوں میں پی ٹی آئی کے قومی

 اسمبلی سے ڈنکے کی چوٹ پر مستعفی ہونے والے ارکان قومی اسمبلی کی

 نشستوں پر جو ضمنی انتخابات ہونے تھے ان کے خلاف حکم امتناعی کیوں

 دیا گیا۔ کیا استعفوں کا اعلان قومی اسمبلی میں کرکے شاہ محمود قریشی کی

 قیادت میں ارکان ایوان سے باہر نہیں چلے گئے تھے۔فواد چودھری، قاسم 

سوری، اسد عمر اور خود عمران خان کیا ان استعفوں کے بعد یہ نہیں کہتے

 رہے کہ ہم مستعفی ہوچکے ہیں پی ڈی ایم کا سپیکر قانون کی خلاف ورزی 

کررہا ہے۔ کیا پی ٹی آئی کی کور کمیٹی اور سنٹرل کمیٹی نے اپنے فیصلے میں یہ 

نہیں کہا تھا۔


"چونکہ ہمارے ارکان قومی اسمبلی سے مستعفی ہوچکے ہیں اس لئے اب وہ 

 اسپیکر راجہ پرویز مشرف کے پاس انفرادی یا گروپ کی صورت میں

 استعفوں کی تصدیق کے لئے پیش نہیں ہوں گے؟ قومی اسمبلی کی

 100کے قریب نشستوں پر ضمنی انتخابات کے خلاف درخواستوں

 کی منظوری، مستعفی ارکان کے استعفوں پر حکم امتناعی، الیکشن

 کمیشن کو انہیں ڈی سیٹ کرنے کا نوٹیفکیشن واپس لینے کا حکم، یہ انصاف

 تھا یا "پارٹی بازی؟"ایک لمحے کے لئے بھی یہ سوچنے کی زحمت نہیں کی گئی

 کہ کیسے ایک عدالت، الیکشن کمیشن اور سپیکر آفس کے اختیارات استعمال

 کرسکتی ہے۔


چلیئے ان باتوں کو اٹھارکھتے ہیں۔ اس پر بھی بات نہیں کرتے کہ "بہت

 شور سنتے تھے پہلو میں دل کا، جو چیرا تو تین آڈیو اور دو ویڈیو نکلیں"۔ اٹارنی

 جنرل کے توسط سے صاحبان سے طے کی گئی ملاقات چار گھنٹے جاری رہی۔

 راوی کے بقول تین گھنٹے سنتالیس اڑتالیس منٹ (چار گھنٹے ہی ہوئے) 

اس ملاقات کے حوالے سے خبری طرح طرح کی خبریں"نچوڑ" کر لارہے ہیں۔


ایک خبر یہ ہے کہ اس ملاقات کی مکمل ویڈیو موجود ہے زیرزبر سمیت۔ بار

 دیگر عرض ہے تحریر نویس کو تین عدد آڈیو اور دو عدد ویڈیو سنانے دیکھا

نے پر یا تحفہ میں پیش کرنے والی خبر سے کوئی دلچسپی نہیں۔اصل سوال

 یہ ہے کہ اب کیا ہوگا؟ ایک جواب وزارت دفاع کی جانب سے وزارت

 دفاع کے سیکرٹری کے ہمراہ دو صاحبان کی صاحبان سے ملاقات کے اگلے 

روز دائر کی جانے والی اس درخواست میں آنکھیں اور عقل رکھنے والوں کے

 لئے کافی ساری نشانیاں ہیں۔ اب دیکھتے ہیں اس درخواست کی سماعت کے

 دوران کیسی پھلجڑیاں چھوٹتی ہیں فی الوقت تو صورت یہ ہے کہ کوئی "جرگہ" 

جاری ہے۔


دوسری طرف قومی اسمبلی نے ایک بار پھر الیکشن کمیشن کو فنڈز جاری کرنے

 کی منظوری نہیں دی۔ سٹیٹ بینک اور الیکشن کمیشن نے اپنی رپورٹس سپریم

 کورٹ میں جمع کروادی ہیں۔ وزارت دفاع کی دائر کردہ درخواست میں کہا گیا

ہے کہ ملک بھر میں الیکشن ایک ساتھ کروائے جائیں۔ قومی اسمبلی اور دو 

صوبائی اسمبلیوں کی آئینی مدت پوری ہونے کا انتظار کیا جائے اور یہ مدت

 پوری ہونے پر ہی انتخابات کروائے جائیں۔


محاذ آرائی اور ہیرو گیری کے شوق میں دستور اور نظام کی بنیادیں ہلانے 

والوں کے پاس اب کرنے کا کام کیا ہے اس پر مغزماری کی بجائے باردیگر

 یہ سوال پڑھنے والوں کے سامنے رکھتا ہوں کہ 10ماہ تک قومی اسمبلی سے دیئے 

گئے استعفوں کو سیاسی غیرت کا مظاہرہ، غلامی سے انکار، اصولوں کی پاسداری

 قرار دینے والوں نے پھر اپنے ہی استعفوں کے خلاف عدالتوں میں جاکر ضمنی

 الیکشن کیوں رکوائے؟


 کیااس معاملے میں نظام انصاف کا دامن واقعی صاف ہے؟ باردیگر عرض کردوں

 توقیر بنوانے منوانے میں برسوں لگتے ہیں ملیا میٹ ہونے میں صرف ایک پل

 اور ایک لفظ۔آئینی و قانونی ماہرین کہلاتے صاحبان اس امر سے آگاہ نہیں تھ

ے کہ دوسرے اداروں کے اختیارات استعمال کرنے اور طے شدہ امور پر حکم

 امتناعیوں کی سینچری بنانے کے نتائج کیا نکلیں گے؟ معاف کیجئے گا اس ملک

 کے نظام انصاف سے پہلے ہی لوگ مطمئن و شاداں نہیں تھے شکایات ہمیشہ

 رہیں ننانوے فیصد شکایات جائز تھیں اور ہیں۔


"فیصلوں" کی سیاست پہلی بار نہیں ہوئی مولوی تمیزالدین والے کیس سے آج

 تک سیاست ہی ہوئی۔ فوجی آمروں کے سامنے بچھ بچھ جانے والے دوسروں

 پر جیسے چڑھ دوڑتے ہیں اس سے توقیر میں اضافہ نہیں ہوتا بلکہ لوگ دبے

 لفظوں میں کہتے ہیں کہ یہاں ڈنڈا اور بندوق سیدھا رکھتے ہیں۔ایک دو نہیں درجنوں

 مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں اختیارات سے تجاوز اور دوسرے اداروں کے

 اختیارات استعمال کرنے کی۔ سیاسی عدم استحکام پر ملکہ جذبات صبیحہ خانم 

کی طرح نم آنکھوں سے جذباتی گفتگو کرنے والے صاحبان یہ تو بتائیں کہ سیاسی

 عدم استحکام کا ذمہ دار کون ہے؟


کیا یہ درست نہیں کہ ڈپٹی سپیکر (سابق قاسم سوری) کی وہ رولنگ جس میں اس

 نے تحریک عدم اعتماد لانے والوں کو غدار قرار دیتے ہوئے رائے شماری کے 

بغیر قرارداد مسترد کردی، وزیراعظم نے صدر کو قومی اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری

 بھجوادی اور صدر نے اسمبلی تحلیل کردی تینوں کام خلاف آئین ہوئے۔کیا آئین 

شکنی کے مرتکب افراد کے خلاف قانونی کارروائی بنتی تھی یا ازخود نوٹس لے کر تحف

ظ دینے کی سہولت کاری؟


اب تواس سوال کا بھی سامناکرنا پڑے گا کہ دو جونیئر ججوں کو کیسے سپریم کورٹ

 لے جانے کے لئے اس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے سہولت

 کاری کس نے کرائی؟یہ سوال ہے اور یہ اس وقت تک شاہراہ دستور پر ناچے گا

 جب تک جواب نہیں ملتا۔اتاولے صاحبان اور ٹائیگرز کہتے ہیں پی ڈی ایم

 حکومت میں ہمت ہے تو پنجاب اسمبلی کا الیکشن کروائے۔ رکیئے ذرا۔ الیکشن

 صرف پنجاب اسمبلی کے کیوں، خیبر پختونخوا کے کیوں نہیں اور قومی اسمبلی کی

 ان خالی نشستوں پر ضمنی انتخابات کیوں نہیں جن پر اب مستعفی ارکان کو حکم 

امتناعی تھمادیا گیا۔


کیا صاحبان اس امر سے لاعلم تھے کہ سپیکر آفس کا فیصلہ تبدیل کرنے کا اختیار

 عدالت کے پاس نہیں۔ اس نیم حکیم حکم امتناعی کا حاصل وصول کیا ہے؟تلخ

 حقیقت یہ ہے کہ حالیہ عرصے میں جتنا ریلیف عدالتوں نے پی ٹی آئی اور عمران

 خان کو دیا اور جس طرح لاڈ اٹھائے جارہے ہیں اس پر داد کے ڈونگروں کے شور

 والی جگہ سے باہر نکل کر کوئی سنے کہ خلق خدا کہتی کیا ہے۔کہنے عرض کرنے اور یاد

 دلانے کے لئے اور بہت کچھ ہے فی الوقت اتنا ہی اور آخری بات یہ ہے کہ دستور 

اور پارلیمنٹ کی بالادستی مسلمہ ہے۔ خود کو دستور اور پارلیمنٹ سے برتر سمجھنے کا

 شوق کسی کو نہیں پالنا چاہیے۔


پیر، 17 اپریل، 2023

سراج الحق اہم مشن پر!........... انصارعباسی

0 Comments

 

سراج الحق اہم مشن پر!...........   انصارعباسی





چلیں شکر ہے کہ نہ تھمنے والی سیاسی دشمنی کے ماحول میں کسی نے سیاستدانوں کے درمیان بات چیت کرنے کی عملی کوشش تو شروع کی۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق گزشہ روز پہلے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان سے ملے اور بعد میں وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات کی۔

شام کے وقت میںنے اُن سے رابطہ کیا تا کہ جان سکوں کہ کیا کوشش ہو رہی ہے اور آیا امیر جماعت کو کوئی مثبت رسپانس ملا بھی کہ نہیں۔

سراج الحق صاحب نے مجھے بتایا کہ اُن کی ملاقات کا مقصد سیاست کی موجودہ تلخی، جو دشمنی میں بدل چکی ہے، کو ختم اور پاکستان کو موجودہ بحرانوں سے سراج الحق کا کہنا تھا کہ اگر سیاستدانوں نے اپنی ذمہ داری کا احساس نہ کیا، اپنی اپنی ذاتی انا اور سیاسی مفادات کو پیچھے رکھ کر پاکستان کے بارے میں نہ سوچا اور ایک ساتھ نہ بیٹھے تو ہمارا حال بھی خدانخواستہ عراق، لیبیا اور شام وغیرہ جیساہو سکتا ہے۔

میرے استفسار پر اُنہوں نے بتایا کہ وزیراعظم شہباز شریف اور عمران خان دونوںنےاُنہیں مثبت جواب دیااور سیاستدانوں کے درمیان بات چیت سے متعلق حوصلہ افزا ردعمل دیا۔

میں نے پوچھا کہ اگر طرفین بات چیت کی لئے راضی ہیں تو اب امیر جماعت اسلامی کا اگلا لائحہ عمل کیا ہو گا اور آیا اب وہ دونوں اطراف کو ساتھ بٹھانے کیلئے عید سے پہلے یا عید کے فوری بعد کوئی بات کریں گے، جس پر سراج الحق نے بتایا کہ اُن کیلئے وزیر اعظم اور عمران خان کی طرف سے مذاکرات کے حق میں ہامی بھرنا ایک اہم اقدام ہے، جس کے بعد وہ چند ایک دوسرے سیاستدانوں سے بھی ملاقات کریں گے تاکہ سیاستدانوں کے درمیان بات چیت شروع کرائی جائے اور پاکستان کو موجودہ بحرانوں سے نکالنے کی کوئی تدبیر ہو سکے۔ سراج الحق ایک ساتھ پورے ملک میں انتخابات کے حامی ہیں اور اس کیلئے اُن کی

کوشش ہے کہ سیاستدان مل بیٹھ کر انتخابات کی تاریخ کا فیصلہ کریں۔ سراج الحق سے اس گفتگو کے تھوڑی دیر بعد مولانا فضل الرحمٰن کا بیان چینلز پر سننے کو ملا ،جس میں اُنہوں نے عمران خان سے بات چیت کے آپشن کو مکمل بطور پر رد کرتے ہوئے کہا کہ کیا وہ (حکمراں اتحاد) اتنا گر گئے ہیں کہ عمران خان سے بات کریں۔ نہیں معلوم کہ مولانا کا یہ بیان سراج الحق کی کوششوں کے متعلق خبروں کا ردعمل تھا یا اُنہوں نے یہ بات پہلے کسی تقریب یا اخبار نویسوں سے بات چیت کرتے ہوے کی لیکن اس سیاسی رویےکی ، چاہے وہ کسی بھی طرف سے ہو، حوصلہ شکنی کرنی چاہئے۔

اگر پہلے عمران خان بات چیت کے خلاف تھے اور اپنے مخالفوں کے ساتھ مذاکرات کیلئے راضی نہ تھے تو اُن کا یہ عمل غلط تھا۔ اسی طرح حکمراں اتحاد یا اُس کا کوئی رہنما اگر اب وہی بات کرے کہ کچھ بھی ہو عمران خان سے بات نہیں کرنی تو ایسے رویے کی ہر صورت حوصلہ شکنی ہونی چاہئے۔ اب تو حکمراں اتحاد میں شامل پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری بھی حکومت اور عمران خان کے درمیان بات چیت کے حق میں بات کر رہے ہیں اور خبروں کے مطابق اُنہوں نے اس سلسلے میں پی پی پی کے تین سینئر اراکین پارلیمنٹ پر مشتمل ایک کمیٹی بھی تشکیل دی ہے تا کہ دوسری سیاسی جماعتوں سے رابطہ کر کے مذاکرات کیلئے کوئی رستہ نکالا جائے۔

امید ہے کہ سراج الحق جلد ہی زرداری اور مولانا سے بھی ملاقات کریں گے تا کہ پاکستان کو کسی بڑے نقصان سے بچانے کیلئے مذاکرات کا رستہ ہموار کیا جائے۔ یہاں میری امیر جماعت اسلامی سے گزارش ہو گی کہ مذاکرات صرف انتخابات کے نکتہ پر نہیں ہونے چاہئیں بلکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ انتخابات کی تاریخ کا فیصلہ کرتے وقت معیشت اور گورننس کی بنیادوں کو ٹھیک کرنےکیلئے میثاق معیشت اور میثاق گڈ گورننس پر بھی سیاستدانوں کو راضی کیا جائے کیوں کہ دیکھا گیا ہے کہ ہماری جمہوریت عمومی طور پر صرف انتخابات اور اقتدار کے گرد ہی گھومتی ہے اور سیاسی جماعتیں حکومت میں آنے کے بعد بہتر طرز حکمرانی، اداروں کی مضبوطی جیسی اہم ترین ذمہ داریوں کو بھول جاتی ہیں اور معیشت جیسا اہم ترین معاملہ حکومت و اپوزیشن کی سیاست کی بھینٹ ہی چڑھا رہتا ہے۔نکالنے کیلئے سیاستدانوں کو ایک میز پر بٹھانے کی کوشش کرناہے۔

بانجھ پن اور معاشرہ...........راضیہ سید

0 Comments

 






                                                       ”کیا کریں بہن بس سوچا تھا کہ ظفر کی شادی ہو گی تو میرے ا?نگن کی اداسی بھی دور ہو جائے گی۔ یہاں بھی پوتے پوتیاں کھیلیں گے ، ایک ہی ایک بیٹا ہے میرا ، اسی سے خاندان آگے بڑھے گا لیکن ایک ہماری بہو ہیں انھیں تو خاندان بڑھانے سے کوئی لگاو? ہی نہیں۔ جب بھی اولاد کی بات کرو, ا?ئیں بائیں شائیں کرتی ہیں۔ دوسری طرف میرا اکلوتا بیٹا سیدھا سادا اسکو ہزار دفعہ سمجھایا ہے کہ اگر اس عورت سے اولاد نہیں ہو رہی تو مردوں کو بیویوں کی کوئی کمی تھوڑی ہے لیکن وہ بشریٰ کو طلاق دینے کے لئے آمادہ ہی نہیں۔ یہ آج کل کی لڑکیاں بھی ناں بس شوہروں کو اپنے اشاروں پر نچاتی رہتی ہیں ، خیر چھوڑو تم سناو? چائے پیو گی ؟ بشریٰ کو کہتی ہوں بنا دے گی۔بیگم شبانہ ہمدانی درمیانے طبقے کی اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون تھیں لیکن تعلیم نے ان کا کچھ نہیں بگاڑا تھا ان میں کبھی سوچ کی وسعت اور شعور جیسے پیدا ہی نہ ہو سکا تھا۔ وہ بیوہ تھیں اور بیٹا بھی ایک ہی تھا۔ 

ظفر ایم بی اے تھا اور ایک کمپنی میں اعلیٰ پوسٹ پر کام کر رہا تھا ، اکلوتا تھا ماں کی امیدوں کا مرکز وہی تھا۔ اسکی شادی بھی بیگم ہمدانی نے بڑی دھوم دھام سے کی تھی۔ بشریٰ انکی اکلوتی اور لاڈلی بہو تھی لیکن جب وہ چار سال بعد بھی انھیں پوتا پوتی کی خوشی نہ دے سکی تو ان کا رویہ یکسر تبدیل ہوتا گیا۔ وہ ایک طرح سے بہو سے عاجز ا?گئی تھیں اٹھتے بیٹھتے اسے طعنے دینے میں ان کا دن گزر جاتا تھا۔وہ جس بھی ڈاکٹر کے پاس بہو کو چیک اپ کے لیےلے کر جاتیں سب یہی کہتے کہ ان کی بہو صحت مند ہے اور شاید اللہ کے ہاں سے ہی دیر ہے۔ وہ بشریٰ کو تو بہت کچھ کہتیں لیکن اپنے بیٹے کو ا?ج تک ٹیسٹ تک کروانے کے لئے نہیں کہا تھا۔ بشریٰ بہت صابر اور شاکر تھی لیکن ا?ج اسکی ا?نکھوں میں بھی ا?نسو امڈ ا?ئے تھے۔ وہ چار سال سے شوہر کو علاج کے لئے کہہ رہی تھی لیکن وہ ہمیشہ ٹال مٹول کر دیتا تھا۔ 

”ظفر آپ کم ازکم ٹیسٹ تو کروا کے دیکھیں ، اماں نے تو ا?ج ا?نٹی صفیہ کو بھی سب کچھ بتا دیا۔ اگر اب اولاد نہیں تو اس میں میرا کیا قصور ہے ؟ میں تو جس بھی ڈاکٹر کو دکھاتی ہوں میری رپورٹس ٹھیک ا?تی ہیں اور ان سب کا یہی کہنا ہوتا ہے کہ ا?پ اپنے شوہر کے بھی ٹیسٹ کروا لیں۔ “ بشریٰ ظفر سے بات کرتے کرتے روہانسی ہو گئی۔ “ بیگم شبانہ ہمدانی نے اپنی سہیلی اور محلے دار صفیہ کو تمام رام کہانی کہہ سنائی۔ 

”ٰیار تم جب بھی بیٹھو ایک اولاد کا بکھیڑا لے کر بیٹھ جاتی ہو، کیا تمھارے پاس کوئی اور ٹاپک نہیں ہے بات کرنے کو ، بچے سوائے شور شرابے کے کرتے ہی کیا ہیں ؟ تم چھوڑو اماں کو وہ یونہی کہتی رہیں گی۔ ہم دونوں ایسے ہی خوش ہیں “۔ ظفر نے گویا بات ہی ختم کر دی۔ 

شبانہ ہمدانی کا غصہ روز بروز بڑھتا جا رہا تھا ، ا?ج بشریٰ نے بہت منت سماجت سے ظفر کو ٹیسٹ کروانے کے لئے ا?مادہ کیا تھا ، وہ ڈاکٹر سیمی کے کلینک پر ا?ئے تھے جہاں دونوں نے ٹیسٹ کروائے واپسی پر ظفر کا موڈ بہت ا?ف تھا لیکن بشریٰ نے مطلق پروا ہ نہ کی۔چند ہی دنوں میں رپورٹس مل گئیں۔ کمرے سے ظفر کے دھاڑنے کی ا?واز ا?رہی تھی ”تم اپنی من مانی کر کے خوش ہو گئی ہو میں نے تمھیں کتنا منع کیا تھا کہ ٹیسٹ نہیں کروانے لیکن تم نے بھی اپنی کر لی ناں تمھیں کچھ تو خیال کرنا چاہیے تھا۔ میری انا پر کڑی ضرب لگا کر ا?خر تمھیں کیا مل گیا ؟ “دونوں کی ا?وازیں بلند ہو رہی تھیں کہ بیگم ہمدانی بھی وہیں ا?گئیں۔ ” کیا ہوا ہے تم دونوں اتنا کیوں چلا رہے ہو ؟”یہ ا?پ اپنی بہو سے پوچھیں جسے اولاد کا بہت شوق ہے ہم نے ٹیسٹ کروائے ہیں ا?پ کی بہو بانجھ ہے ہمارے ہاں اولاد نہیں ہو سکتی۔ “ظفر نے نہایت مکاری سے اپنی خامی چھپا کر تمام بوجھ بشریٰ کے کندھوں پر ڈال دیا۔ بشریٰ حیرت سے دونوں ماں بیٹے کو دیکھ رہی تھی۔ “

”اچھا تو میرا اندازہ درست نکلا ، ظفر میرے بچے تم دوسری شادی کیوں نہیں کر لیتے ؟ تاکہ اس مصیبت سے تو جان چھوٹ جائے۔ “ بیگم ہمدانی اٹل لہجے میں بولیں۔

”اماں ا?پ کی تان دوسری شادی پر ہی کیوں ٹوٹتی ہے ؟ بند کریں اس ٹاپک کو ، اب میں مزید بحث نہیں چاہتا۔ آپ بشریٰ کو کچھ وقت دیں ، شاید اسکا علاج ہو جائے اور ہمارے ہاں بھی اولاد ہو جائے۔ “ ظفر اپنے پتے نہایت مہارت سے کھیل رہا تھا۔ بیگم ہمدانی کی سوئی اولاد پر ہی اٹک گئی تھی آج ان کی کسی جاننے والی نے سیمی کلینک کا بتایا تھا کہ وہاں کی ڈاکٹر کے ہاتھ میں خدا نے بہت شفا رکھی ہے اپنی بہو کا علاج وہاں سے کروا کے دیکھو۔ڈاکٹر سیمی نے بشریٰ کو دیکھتے ہی پہچان لیا ”اچھا تو آپ وہیں ہیں جو بالکل تندرست ہیں ، یاد آیا کہ آپ کے شوہر غالباً ظفر یہی نام ہے ناں ان کا ؟وہ تو اولاد پیدا کرنے سے قاصر ہیں۔ ا?ٓ کے ٹیسٹ یہیں ہوئے تھے میں نے آپ کو یہی مشورہ دیا تھا کہ آپ اپنی نئی زندگی کا آغاز کریں یا سمجھوتہ کر لیں۔ “ڈاکٹر سیمی نے تفصیل سے سب کچھ بتا دیا۔ 

بیگم شبانہ ہمدانی کی نگاہیں جو پہلے بشریٰ کے چہرے پر تھیں اب زمین میں گڑ گئی تھیں۔ انھیں اپنے بیٹے کے بانجھ ہونے کا دکھ تو تھا ہی زیادہ صدمہ بشریٰ کے سامنے اپنی سبکی کا ہوا تھا۔ گاڑی میں ا?تے بیگم ہمدانی بشریٰ سے بار بار معافی مانگ رہی تھیں لیکن بشریٰ کا چہرہ بالکل سپاٹ تھا۔ گھر پہنچے تو ظفر بھی ا?چکا تھا ،بیگم ہمدانی نے ظفر کے سامنے رپورٹس رکھ دیں۔ ?ظفر کا راز کھل چکا تھا اسکی کیفیت کاٹو تو بدن میں لہو نہیں والی تھی۔ 

”بشریٰ میری بچی مجھے معاف کر دو ، میں نے تم پر بانجھ پن کا الزام لگایا ، معلوم نہ تھا کہ میرا اپنا بیٹا ہی کھوٹا سکا نکلے گا۔ “ بیگم ہمدانی بہت شرمندہ ہو رہی تھیں۔ 

” پلیز بشریٰ میری بات سنو ، ہم دونوں ساتھ رہ سکتے ہیں میں تم سے بہت محبت کرتا ہوں تمھارے بنائ جینے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ ظفر گھگھیایا۔ 

”بس اب بہت ہو گئی ، تم دونوں ماں بیٹا اپنا ڈرامہ بند کرو ، ظفر میں تمھارے ساتھ نہیں رہ سکتی۔ میرا بھی زندگی کی خوشیوں پر حق ہے۔ ا?ج وہ سب ادب ا?داب بھول کر ا?پ سے تم پر اتر ا?ئی تھی۔ ظفر سے پیار اسے بھی تھا لیکن جب سے اس نے اپنی ماں کے سامنے اسکی ذات کی دھجیاں بکیھری تھیں وہ ٹوٹ کر بکھر گئی تھی۔ ”تم مجھے کوس لو ، گالیاں دے دو ، برا بھلا کہو پر مجھے چھوڑنے کی بات نہ کرو بشریٰ۔ “ ظفر بار بار بشریٰ کی منت کر رہا تھا لیکن وہ سنی ان سنی کر رہی تھی۔ 

”ظفر تم نے مجھے بہت مایوس کیا میں اتنے دن سے تمھارا راز چھپائے بیٹھی تھی کہ میاں بیوی ایک دوسرے کا لباس ہیں لیکن تم نے تو میرے سر سے چادر چھین کرمجھے بے توقیر کر دیا۔ تم نے تو اپنی ماں کے سامنے مجھے بانجھ ثابت کر دیا۔ وہ تو ا?ج اللہ تعالیٰ نے یہ حقیقت ا?شکار کر دی ورنہ تم نے مجھے رسوا کرنے میں کوئی کسر روا نہ رکھی تھی۔ “ بشریٰ نے کہا 

”بشریٰ کتنی ہی عورتیں اپنا گھر بساتی ہیں اور ایسے حالات میں بھی گزارا کرتی ہیں تم کوئی انوکھی تو نہیں ہو گی۔ “ بیگم ہمدانی نے پھر بشریٰ پر جذباتی وار کرنا چاہا۔

” آنٹی عورتیں اگر گزارا کرتی ہیں تو کرتی ہوں گی میں ان عورتوں جیسے میڈل نہیں لینا چاہتی۔ یہ پورا معاشرہ ہی بانجھ ہے نہ آپ نے مجھے عزت دی نہ ا?پ کے بیٹے نے مان دیا۔ میں کس لئے یہاں رکوں جہاں میری کوئی قدر ہی نہیں ہے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ بہو کے بانجھ پن کے قصے سات سمندر پار چلے جاتے ہیں اور بیٹا اولاد پیدا کرنے کے قابل نہ ہو تو اسکی پردہ پوشی کی جاتی ہے۔ ہرصورت الزام بہو پر دھر دیا جاتا ہے۔ یہ بانجھ معاشرہ ا?پ جیسی زعم رکھنے والی ماو?ں اور ظفر جیسے انا پرست مرد بناتے ہیں۔ عورت ہمیشہ کیا طعنے سننے کے لئے رہ گئی ہے ، ظفر میں تمھارے ساتھ نہیں رہنا چاہتی اول تو شرعی طور پر ہمارا ساتھ رہنا جائز نہیں۔ تم مجھے خود ہی طلاق دے دو ورنہ مجھے خلع کے لئے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا ہو گا۔ “ بشریٰ پہلے ہی سے اپنا بیگ تیار کر چکی تھی اسکی کیب کچھ ہی دیر میں آنے والی تھی بشریٰ یہاں سے جا رہی تھی لیکن جاتے جاتے اس بانجھ معاشرے کے مکروہ چہرے پر زوردار طمانچہ رسید کر کے اسے بے نقاب کر گئی تھی۔۔،

واضح رہے کہ اس تحریر میں شامل نام فرضی ہیں۔ 

نوٹ: یہ مصنفہ کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں