”کیا کریں بہن بس سوچا تھا کہ ظفر کی شادی ہو گی تو میرے ا?نگن کی اداسی بھی دور ہو جائے گی۔ یہاں بھی پوتے پوتیاں کھیلیں گے ، ایک ہی ایک بیٹا ہے میرا ، اسی سے خاندان آگے بڑھے گا لیکن ایک ہماری بہو ہیں انھیں تو خاندان بڑھانے سے کوئی لگاو? ہی نہیں۔ جب بھی اولاد کی بات کرو, ا?ئیں بائیں شائیں کرتی ہیں۔ دوسری طرف میرا اکلوتا بیٹا سیدھا سادا اسکو ہزار دفعہ سمجھایا ہے کہ اگر اس عورت سے اولاد نہیں ہو رہی تو مردوں کو بیویوں کی کوئی کمی تھوڑی ہے لیکن وہ بشریٰ کو طلاق دینے کے لئے آمادہ ہی نہیں۔ یہ آج کل کی لڑکیاں بھی ناں بس شوہروں کو اپنے اشاروں پر نچاتی رہتی ہیں ، خیر چھوڑو تم سناو? چائے پیو گی ؟ بشریٰ کو کہتی ہوں بنا دے گی۔بیگم شبانہ ہمدانی درمیانے طبقے کی اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون تھیں لیکن تعلیم نے ان کا کچھ نہیں بگاڑا تھا ان میں کبھی سوچ کی وسعت اور شعور جیسے پیدا ہی نہ ہو سکا تھا۔ وہ بیوہ تھیں اور بیٹا بھی ایک ہی تھا۔
ظفر ایم بی اے تھا اور ایک کمپنی میں اعلیٰ پوسٹ پر کام کر رہا تھا ، اکلوتا تھا ماں کی امیدوں کا مرکز وہی تھا۔ اسکی شادی بھی بیگم ہمدانی نے بڑی دھوم دھام سے کی تھی۔ بشریٰ انکی اکلوتی اور لاڈلی بہو تھی لیکن جب وہ چار سال بعد بھی انھیں پوتا پوتی کی خوشی نہ دے سکی تو ان کا رویہ یکسر تبدیل ہوتا گیا۔ وہ ایک طرح سے بہو سے عاجز ا?گئی تھیں اٹھتے بیٹھتے اسے طعنے دینے میں ان کا دن گزر جاتا تھا۔وہ جس بھی ڈاکٹر کے پاس بہو کو چیک اپ کے لیےلے کر جاتیں سب یہی کہتے کہ ان کی بہو صحت مند ہے اور شاید اللہ کے ہاں سے ہی دیر ہے۔ وہ بشریٰ کو تو بہت کچھ کہتیں لیکن اپنے بیٹے کو ا?ج تک ٹیسٹ تک کروانے کے لئے نہیں کہا تھا۔ بشریٰ بہت صابر اور شاکر تھی لیکن ا?ج اسکی ا?نکھوں میں بھی ا?نسو امڈ ا?ئے تھے۔ وہ چار سال سے شوہر کو علاج کے لئے کہہ رہی تھی لیکن وہ ہمیشہ ٹال مٹول کر دیتا تھا۔
”ظفر آپ کم ازکم ٹیسٹ تو کروا کے دیکھیں ، اماں نے تو ا?ج ا?نٹی صفیہ کو بھی سب کچھ بتا دیا۔ اگر اب اولاد نہیں تو اس میں میرا کیا قصور ہے ؟ میں تو جس بھی ڈاکٹر کو دکھاتی ہوں میری رپورٹس ٹھیک ا?تی ہیں اور ان سب کا یہی کہنا ہوتا ہے کہ ا?پ اپنے شوہر کے بھی ٹیسٹ کروا لیں۔ “ بشریٰ ظفر سے بات کرتے کرتے روہانسی ہو گئی۔ “ بیگم شبانہ ہمدانی نے اپنی سہیلی اور محلے دار صفیہ کو تمام رام کہانی کہہ سنائی۔
”ٰیار تم جب بھی بیٹھو ایک اولاد کا بکھیڑا لے کر بیٹھ جاتی ہو، کیا تمھارے پاس کوئی اور ٹاپک نہیں ہے بات کرنے کو ، بچے سوائے شور شرابے کے کرتے ہی کیا ہیں ؟ تم چھوڑو اماں کو وہ یونہی کہتی رہیں گی۔ ہم دونوں ایسے ہی خوش ہیں “۔ ظفر نے گویا بات ہی ختم کر دی۔
شبانہ ہمدانی کا غصہ روز بروز بڑھتا جا رہا تھا ، ا?ج بشریٰ نے بہت منت سماجت سے ظفر کو ٹیسٹ کروانے کے لئے ا?مادہ کیا تھا ، وہ ڈاکٹر سیمی کے کلینک پر ا?ئے تھے جہاں دونوں نے ٹیسٹ کروائے واپسی پر ظفر کا موڈ بہت ا?ف تھا لیکن بشریٰ نے مطلق پروا ہ نہ کی۔چند ہی دنوں میں رپورٹس مل گئیں۔ کمرے سے ظفر کے دھاڑنے کی ا?واز ا?رہی تھی ”تم اپنی من مانی کر کے خوش ہو گئی ہو میں نے تمھیں کتنا منع کیا تھا کہ ٹیسٹ نہیں کروانے لیکن تم نے بھی اپنی کر لی ناں تمھیں کچھ تو خیال کرنا چاہیے تھا۔ میری انا پر کڑی ضرب لگا کر ا?خر تمھیں کیا مل گیا ؟ “دونوں کی ا?وازیں بلند ہو رہی تھیں کہ بیگم ہمدانی بھی وہیں ا?گئیں۔ ” کیا ہوا ہے تم دونوں اتنا کیوں چلا رہے ہو ؟”یہ ا?پ اپنی بہو سے پوچھیں جسے اولاد کا بہت شوق ہے ہم نے ٹیسٹ کروائے ہیں ا?پ کی بہو بانجھ ہے ہمارے ہاں اولاد نہیں ہو سکتی۔ “ظفر نے نہایت مکاری سے اپنی خامی چھپا کر تمام بوجھ بشریٰ کے کندھوں پر ڈال دیا۔ بشریٰ حیرت سے دونوں ماں بیٹے کو دیکھ رہی تھی۔ “
”اچھا تو میرا اندازہ درست نکلا ، ظفر میرے بچے تم دوسری شادی کیوں نہیں کر لیتے ؟ تاکہ اس مصیبت سے تو جان چھوٹ جائے۔ “ بیگم ہمدانی اٹل لہجے میں بولیں۔
”اماں ا?پ کی تان دوسری شادی پر ہی کیوں ٹوٹتی ہے ؟ بند کریں اس ٹاپک کو ، اب میں مزید بحث نہیں چاہتا۔ آپ بشریٰ کو کچھ وقت دیں ، شاید اسکا علاج ہو جائے اور ہمارے ہاں بھی اولاد ہو جائے۔ “ ظفر اپنے پتے نہایت مہارت سے کھیل رہا تھا۔ بیگم ہمدانی کی سوئی اولاد پر ہی اٹک گئی تھی آج ان کی کسی جاننے والی نے سیمی کلینک کا بتایا تھا کہ وہاں کی ڈاکٹر کے ہاتھ میں خدا نے بہت شفا رکھی ہے اپنی بہو کا علاج وہاں سے کروا کے دیکھو۔ڈاکٹر سیمی نے بشریٰ کو دیکھتے ہی پہچان لیا ”اچھا تو آپ وہیں ہیں جو بالکل تندرست ہیں ، یاد آیا کہ آپ کے شوہر غالباً ظفر یہی نام ہے ناں ان کا ؟وہ تو اولاد پیدا کرنے سے قاصر ہیں۔ ا?ٓ کے ٹیسٹ یہیں ہوئے تھے میں نے آپ کو یہی مشورہ دیا تھا کہ آپ اپنی نئی زندگی کا آغاز کریں یا سمجھوتہ کر لیں۔ “ڈاکٹر سیمی نے تفصیل سے سب کچھ بتا دیا۔
بیگم شبانہ ہمدانی کی نگاہیں جو پہلے بشریٰ کے چہرے پر تھیں اب زمین میں گڑ گئی تھیں۔ انھیں اپنے بیٹے کے بانجھ ہونے کا دکھ تو تھا ہی زیادہ صدمہ بشریٰ کے سامنے اپنی سبکی کا ہوا تھا۔ گاڑی میں ا?تے بیگم ہمدانی بشریٰ سے بار بار معافی مانگ رہی تھیں لیکن بشریٰ کا چہرہ بالکل سپاٹ تھا۔ گھر پہنچے تو ظفر بھی ا?چکا تھا ،بیگم ہمدانی نے ظفر کے سامنے رپورٹس رکھ دیں۔ ?ظفر کا راز کھل چکا تھا اسکی کیفیت کاٹو تو بدن میں لہو نہیں والی تھی۔
”بشریٰ میری بچی مجھے معاف کر دو ، میں نے تم پر بانجھ پن کا الزام لگایا ، معلوم نہ تھا کہ میرا اپنا بیٹا ہی کھوٹا سکا نکلے گا۔ “ بیگم ہمدانی بہت شرمندہ ہو رہی تھیں۔
” پلیز بشریٰ میری بات سنو ، ہم دونوں ساتھ رہ سکتے ہیں میں تم سے بہت محبت کرتا ہوں تمھارے بنائ جینے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ ظفر گھگھیایا۔
”بس اب بہت ہو گئی ، تم دونوں ماں بیٹا اپنا ڈرامہ بند کرو ، ظفر میں تمھارے ساتھ نہیں رہ سکتی۔ میرا بھی زندگی کی خوشیوں پر حق ہے۔ ا?ج وہ سب ادب ا?داب بھول کر ا?پ سے تم پر اتر ا?ئی تھی۔ ظفر سے پیار اسے بھی تھا لیکن جب سے اس نے اپنی ماں کے سامنے اسکی ذات کی دھجیاں بکیھری تھیں وہ ٹوٹ کر بکھر گئی تھی۔ ”تم مجھے کوس لو ، گالیاں دے دو ، برا بھلا کہو پر مجھے چھوڑنے کی بات نہ کرو بشریٰ۔ “ ظفر بار بار بشریٰ کی منت کر رہا تھا لیکن وہ سنی ان سنی کر رہی تھی۔
”ظفر تم نے مجھے بہت مایوس کیا میں اتنے دن سے تمھارا راز چھپائے بیٹھی تھی کہ میاں بیوی ایک دوسرے کا لباس ہیں لیکن تم نے تو میرے سر سے چادر چھین کرمجھے بے توقیر کر دیا۔ تم نے تو اپنی ماں کے سامنے مجھے بانجھ ثابت کر دیا۔ وہ تو ا?ج اللہ تعالیٰ نے یہ حقیقت ا?شکار کر دی ورنہ تم نے مجھے رسوا کرنے میں کوئی کسر روا نہ رکھی تھی۔ “ بشریٰ نے کہا
”بشریٰ کتنی ہی عورتیں اپنا گھر بساتی ہیں اور ایسے حالات میں بھی گزارا کرتی ہیں تم کوئی انوکھی تو نہیں ہو گی۔ “ بیگم ہمدانی نے پھر بشریٰ پر جذباتی وار کرنا چاہا۔
” آنٹی عورتیں اگر گزارا کرتی ہیں تو کرتی ہوں گی میں ان عورتوں جیسے میڈل نہیں لینا چاہتی۔ یہ پورا معاشرہ ہی بانجھ ہے نہ آپ نے مجھے عزت دی نہ ا?پ کے بیٹے نے مان دیا۔ میں کس لئے یہاں رکوں جہاں میری کوئی قدر ہی نہیں ہے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ بہو کے بانجھ پن کے قصے سات سمندر پار چلے جاتے ہیں اور بیٹا اولاد پیدا کرنے کے قابل نہ ہو تو اسکی پردہ پوشی کی جاتی ہے۔ ہرصورت الزام بہو پر دھر دیا جاتا ہے۔ یہ بانجھ معاشرہ ا?پ جیسی زعم رکھنے والی ماو?ں اور ظفر جیسے انا پرست مرد بناتے ہیں۔ عورت ہمیشہ کیا طعنے سننے کے لئے رہ گئی ہے ، ظفر میں تمھارے ساتھ نہیں رہنا چاہتی اول تو شرعی طور پر ہمارا ساتھ رہنا جائز نہیں۔ تم مجھے خود ہی طلاق دے دو ورنہ مجھے خلع کے لئے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا ہو گا۔ “ بشریٰ پہلے ہی سے اپنا بیگ تیار کر چکی تھی اسکی کیب کچھ ہی دیر میں آنے والی تھی بشریٰ یہاں سے جا رہی تھی لیکن جاتے جاتے اس بانجھ معاشرے کے مکروہ چہرے پر زوردار طمانچہ رسید کر کے اسے بے نقاب کر گئی تھی۔۔،
واضح رہے کہ اس تحریر میں شامل نام فرضی ہیں۔
نوٹ: یہ مصنفہ کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں
0 Comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔