کالم لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
کالم لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

جمعرات، 15 جون، 2023

ٹرمپ عمران اور ٹرسٹ ۔۔۔۔۔۔ محمد طارق خان

0 Comments

سابق امریکی صدر ٹرمپ کا نیویارک اٹارنی جنرل کے دفتر میں بیان ریکارڈ کیا گیا، جس میں ٹرمپ سے ان کے ٹرسٹ سے متعلق بھی سوالات کئے گئے۔





                                           امریکی آئین میں پانچویں ترمیم کسی بھی ملزم کو یہ حق دیتی ہے کہ وہ خاموشی

 اختیار کرے، کسی سوال کا جواب یا کوئی ایسی تحریر یا دستاویز نہ دے جسے

 استغاثہ اپنے حق میں اور ملزم کے خلاف استعمال کرسکے، اپنا مقدمہ اور الزامات

 ثابت کرنا استغاثہ کا کام ہے، ٹرمپ نے اسی پانچویں ترمیم کا سہارا لیا اور

 اٹارنی جنرل دفتر کے کسی بھی سوال کا جواب دینے سے انکار کردیا۔


تاہم آپ ٹرسٹ کے متعلق اٹارنی جنرل آفس کے سوالات سے اندازا لگا سکتے

 ہیں کہ ہر ٹرسٹ کارِ خیر کے لئے نہیں بنایا جاتا، بسا اوقات ٹرسٹ کالا دھن چھپانے،

 ٹیکس چوری کرنے اور من پسند افراد کو نوازنے کے لئے بھی بنائے جاتے ہیں ۔۔


پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان کو بھی ایسا ہی ایک ٹرسٹ بنا کر اربوں

 روپے کا کالا دھن ٹھکانے لگانے کے الزامات کا سامنا ہے۔ 


عمران کہتے ہیں ٹرسٹ بنایا تو کیا ہوا، ٹرسٹ نے یونیورسٹی بنائی تو کوئی جرم نہیں،

 مگر اس طرح کے گمراہ کن بیانات سے وہ اصل جرم کی پردہ پوشی کرتے ہیں۔


اصل جرم یہ کہ برطانیہ سے ملک ریاض سے منی لانڈرنگ کی مد میں ضبط شدہ 190 ملین

 پونڈ کی خطیر رقم جو پاکستان کے سرکاری خزانے میں آنی تھی، وہ انہوں نے غیرقانونی

 طور پر دوبارہ ملک ریاض کے حوالہ کی، تاکہ وہ سپریم کورٹ میں ایک اور مقدمہ میں ملک

 ریاض پر عائد جرمانے کی مد میں جمع کروائی جا سکے، اس طرح سرکاری خزانے کو 190

 ملین پونڈ کا نقصان پہنچایا گیا اور ملک ریاض کو 190 ملین پونڈ کا فائدہ ۔۔۔ 


جس کے عوض ملک ریاض سے اربوں روپے کی زمین بطور عطیہ لی گئی اور یہ عطیہ

 وزیراعظم ہوتے ہوئے ایک ٹرسٹ بنا کر اسکے نام پر وصول کیا گیا اور پھر اس پر

 زمین پر عمارات بھی ملک ریاض نے بطور عطیہ تعمیر کروائیں۔ 


وزیراعظم ہوتے ہوئے ٹرسٹ بنانا، بورڈ آف ٹرسٹیز میں صرف خاندان کو رکھنا اور 

ایک ایسی کاروباری شخصیت سے اس ٹرسٹ کے لئے زمین اور عمارت لینا جسے آپ

 نے بطور وزیراعظم 190 ملین پونڈ کا فایدہ پہنچایا ہو، اور کابینہ سے ایک سربمہر لفافے میں 

ایک غیرقانونی معاہدے کی منظوری لینا ۔۔۔ یہ سارے عمل غیر قانونی ہیں، چاہے آپ

 نے اس کے عوض مسجد بنوائی یا مدرسہ یا یونیورسٹی ۔۔۔ عطیات رشوت اور ملنے والا

 فائدہ یا رقم غیر قانونی ہی متصور ہوں گے۔۔۔  


یہ بات ٹرمپ کے اس کلپ کے حوالے سے ان لوگوں کو سمجھانی ہے جنہیں اس معاملے

 میں کچھ ابہام ہے۔رہے یوتھیئے تو یوتھیوں کے لئے کسی دلیل اور ثبوت کی کوئی حیثیت نہیں

 اس لئے وہ اس پوسٹ سے دور رہیں ۔۔

منگل، 30 مئی، 2023

"اسد عمر قاسم عمر اور سوختہ کشتیاں"۔۔۔۔۔۔۔۔۔ احسان کوہاٹی

0 Comments

    

      کسی کو گھنگھریالے بالوں والا کرکٹر قاسم عمر یاد ہے !وہی

 جس نے1983میں آسٹریلیا کی تیز وکٹوں پر اس بے خوفی

 سے بلے بازی کی کہ سب حیران ہوگئے ،پرتھ کی گولی وکٹ

 پر پوری  ٹیم میں صرف قاسم عمر ہی تھا جس نے آسٹریلوی

 فاسٹ بولنگ کا بے جگری سے سامنا کیا اور تحسین پائی،

اس سیریزمیں رنز بنانے کی سب سے زیادہ اوسط قاسم عمر 

کی رہی  پھرانہی وکٹوں پر قاسم عمر نے دہشت کی علامت

 سمجھے جانے والے ویسٹ انڈینز بولروں مائیک ہولڈنگ،

 جوئیل گارنراور میلکم مارشل جیسی کالی آندھیوں کا سامنا کیا۔

قاسم عمر کے پاس جرات تھی اور اسٹائل بھی، کرکٹ مبصرین

 اس کے روشن مستقبل کی پیشن گوئیاں کرنے لگےلیکن اس

 کی جارحانہ صاف گوئی نے کیرئیر تباہ کردیا ،قاسم عمرنے  بعض

 پاکستانی کھلاڑیوں پر منشیات لے جانے اور استعمال کرنے کا 

الزام لگایا جس پر کہرام بپاہوگیا ۔


کرکٹ میں اس وقت عمران خان کا طوطی بولتا تھا۔ عمران

 خان نے بھی قاسم عمرکو آڑے ہاتھوں لیا اور قاسم عمر  کے

 لئے کرکٹ کے دروازے سات برس کے لئے بند ہوگئے یعنی

 کیرئیر ہی ختم ہوگیا اور یہی نہیں وہ جس بینک کی طرف سے 

کھیلتا تھا اسے وہاں سے بھی جواب مل گیا۔نوکری گئی،قاسم 

عمر نے 2012 میں دیئے گئے ایک انٹرویومیں انکشاف کیا کہ مجھے

 حسیب احسن نے وہ خط دکھایا تھاجس میں عمران خان نے 

جنرل ضیاء الحق سے میری شکایت کی تھی، جنرل ضیاء الحق 

عمران خان کو بہت پسندکرتے تھےاورکہتے تھے ریٹائرمنٹ کے

 بعد وہ انکی حکومت کا حصہ بن جائیں لیکن تب کے عمران خان کا

 کہنا تھا میں تو شریف سا آدمی ہوں میرا ’’ڈرٹی پالیٹکس ‘‘ سے کیا 

تعلق ۔


حیرت انگیز طور پر بعد میں عمران خان نہ صرف سیاست میں

 آئے اپنی جماعت بنائی کامیابیاں سمیٹیں بلکہ وہ ضیاء الحق

 جو انھیں اپنا  مقتدی بنانا چاہتا تھا ،ان کے صاحبزادے اعجاز 

الحق  کو اپنا مقتدی بنالیا،ہر انسان کی طرح عمران خان بھی 

خوبیوں اور  خامیوں کا مجموعہ ہیں۔ عمران خان کی خوبی ان کی

 قوت فیصلہ اورسب سے بڑی خامی جارحانہ مزاج ہے ۔انہوں

 نے کرکٹ  ٹیم  بھی کسی بادشاہ کی طرح چلائی اور پارٹی بھی اسی 

انداز میں،وہ منزل تک پہنچنے کے لئے نئے راستے پر چلنے سے نہیں

 گھبراتے ،انھوں نے اپنے پرستاروں کو سیاسی کارکنوں میں کامیابی

 سے بدلا لیکن ان کی تربیت نہ کرسکے۔ مجھے دس پندرہ برس پہلے کی

 کراچی میں بدنظمی سے بھرپور نیوز کانفرنسیں اور دورے یاد ہیں ،جن

میں ہٹو بچو کی آوازیں لگانے والے کارکن صحافیوں کو دھکے مارتے 

تھے اور گالم گلوچ بھی کرجاتے۔ ایک بار ڈیفنس میں میڈیا سے 

اتنی بدتمیزی اور دھکم پیل کی گئی کہ صحافی بائیکاٹ پر آ گئے۔ پھر یہ 

معمول بنتا چلا گیا اور صحافیوں نے بھی اس مزاج کو قبول کر لیاالبتہ

 پی ٹی آئی کو ایک لسانی فاشسٹ جماعت کا ’’برگر ایڈیشن ‘‘ ضرور

 قرار دے دیا اور پھر تحریک انصاف نے اس پھبتی کی نہ صرف لاج 

رکھی بلکہ وہ کچھ کردکھایا جو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔


 سانحہ نو مئی کس کی سازش تھا ؟ کون کون ملوث تھا ؟ کس کا کیا کردار

تھا ور کون استعمال ہواس بارے میں بہت کچھ سامنے ہے ، اس کا

الزام پی ٹی آئی پر آرہا ہے، نوجوانوں کو اکسانے والے وڈیو کلپس موجود

 ہیں،، جیو فینسنگ ہوچکی ہے ،نادرا کی مدد سے قومی دفاعی تنصیبات پر

حملہ آوروں کی شناخت اورگرفتاری کا عمل جاری ہے۔ بلاشبہ یہ کڑا

 وقت ہے پی ٹی آئی نے آج تک ایسے کسی امتحان کا سامنا نہیں کیا۔ 


 یہ اس کا پہلا امتحان تھا جس میں بری طرح ناکام ہوگئی ۔جو لوگ

 عمران خان کو ریڈلائن کہتے تھے وہ زیبرا کراسنگ قرار دے کرمعافیوں

 تلافیوں پر آگئے۔ جس نے پیشانی پر انگشت شہادت رکھ کر کہا کہ یہاں 

گولی ماردو لیکن خان سے بے وفائی ممکن نہیں،اس بطل جیل  کا عزم

 صمیم جیکب آباد جیل کی گرمی میں تین روز میں پگھل گیا ،سب سے

 زیادہ حیرت پی ٹی آئی کے پوسٹر بوائے اسد عمر پرہوئی راقم کو نہایت

  باوثوق ذرائع سے علم ہوا کہ نو مئی کے بعد اسدعمر کی گرفتاری بھی

 فرمائشی تھی ۔گرفتاری کے بعد انہوں نے ایک’’طاقتور‘‘ شخصیت

 سے ملنے کی خواہش ظاہر کی جو پوری نہ ہوئی البتہ کسی سے ملاقات کرا

 دی گئی اور پھر حالات دیکھ کر اسد عمر نے قاسم عمر بننے کے بجائے

 اسدعمر ہی رہنا بہتر جانااورراستے جدا کرلئے۔ وہ جان گئے کہ شکووں

 شکائتوں کے باوجود بھی پاک فوج عوام کی ریڈلائن ہے ، سرپرائز د

ینے والوں میں اسد عمر اکیلے نہیں، غچہ دے کر اور چار سرکاری  اہلکاروں

 کو معطل کروا کر لندن پہنچنے والے کپتان کے ایک  وکیل وہاں ’’سہارے ‘‘

 ڈھونڈتے اور یہ کہتے پائے جارہے ہیں کہ ’’میں  تو  آپ ہی کا آدمی ہوں‘‘ 

فیصل آباد کے نوجوان مرکزی رہنما بھی معافی نامہ  کے  لئے رابطے کررہے

 ہیں ۔


 یہاں سیاست کے ایک طالب علم کی حیثیت سے سوال تو بنتا ہے کہ 

عمران خان نے اتنی جارحانہ پالیسی اپنائی ہی کیوں ؟انہیں اندازہ نہیں

 تھا کہ عسکری شخصیات پر الزامات کا تسلسل کیا رنگ لائے گا، سوشل 

میڈیا پر اداروں کے خلاف پروپیگنڈے سے وہ بے خبر تو نہ ہوں گے۔ 

وہ دیکھ رہے تھے کہ قوم میں کیا اشتعال کاشت کیا جارہا ہے ؟کیا انہوں 

نے کبھی ایک سیکنڈ کے لئے بھی اس کے ردعمل کا سوچا اور آنے

 والی مشکلات کے لئے اپنے ساتھیوں کو تیار کیا ؟انہوں نے اپنی کور 

ٹیم کا معیار کیا رکھا ؟وہ جو چی گویرا بنے انقلابی اشعار پڑھتے تھے وہ تو جیلوں 

میں مئی  کے چار دن بھی نہ جھیل سکے ؟سچ یہ ہے کہ خان صاحب نے

 اقتدار سے باہر آنے کے بعد لمبی لڑائی لڑنے کے بجائے پہلے راؤنڈ  کو ہی

 فائنل راؤنڈ بناڈالا اور اپنی کشتیاں جلادیں۔ وہ بھول گئے تھے کہ وہ

 بنوامیہ کے بربری جرنیل طارق بن زیاد نہیں زمان پارک کے عمران

 خان  ہیں۔ وہ کشتیاں نہ جلاتے تو پھر جھپٹنے کے لئے پلٹ سکتے تھے۔

 اب وہ مذاکرات کی بات کررہے ہیں کہ کوئی راستہ نکل آئے اور وہ 

لوٹ جائیں لیکن کیا کیجئے کہ ساحل پر فقط سوختہ کشتیوں کی باقیات ہیں۔



     



جمعہ، 26 مئی، 2023

پاکستانی مسٹر پیوٹن (فیض حمید)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رؤف کلاسرا

0 Comments


             علی زیدی کو اس حالت میں دیکھ کر دل بہت دکھی ہوا۔ان کیمشکلات دور کرنے کے لیے دعا مانگی ۔دو تین برس پہلے کی وہ شام یاد آ گئی جب اینکر ماریہ میمن کے شو سے وہ فارغ ہوئے تھے۔


میں اور ارشاد بھٹی بھی وہیں تھے۔ مجھے دیکھا تو قہقہ لگا کر بولے  " آپ 

لاکھ ہمارے سکینڈلز فائل کریں ہم کہیں نہیں جارہے۔ ہم اب

 2028تک حکومت کریں گے۔اب اگلے دس برس بھی پی ٹی آئی

 راج کرے گی۔»


میں ان لوگوں سے اب نہیں الجھتا جن کے خلاف میں اسکینڈلز 

فائل کرتا ہوں۔کبھی الجھ پڑتا تھا۔ عمر بڑھنے کے ساتھ احساس

ہوا یہ کیا بیوقوفی ہے۔ مجھ پر کوئی تنقید کرے تو مجھے کب پسند آتی 

ہے کہ دوسرے مجھے گلے لگائیں گے۔ ان دنوں میں نے تازہ تازہ

 جی آئی ڈی سی کا اسکینڈل فائل کیا تھا جس کے تحت عمران خان

 نے اپنے قریبی ڈونرز اور بزنس مینوں کو ڈھائی سو ارب روپے معاف 

کر دیے تھ جن میں زیادہ تر ان کی ATMs تھیں۔ خیر اس اسکینڈل کو 

بریک کرنے کے بعد معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچا اور عدالت نے عمران

 خان کا فیصلہ غلط قرار دے کر ڈھائی سو ارب روپے ریکوری کا حکم 

دیاتھا۔


اس پر عمران خان ناراض ہوگئے تھے اور ناراضگی اس حد تک پہنچی

 کہ مجھے چینل نوکری سے ہاتھ دھونے پڑے تھے۔ میری بیوی میرا مذاق

 اڑاتی تھی کہ تم پاکستان میں واحد سیانے ہو جس نے اپنی تئیں قوم کے

 ڈھائی سو ارب روپے لیٹروں کے منہ سے بچوائے اور بدلے میں “انعام”

کے طور پر اپنی سات ڈیجیٹ تنخواہ سے ہاتھ دھو بیٹھے ہو اور اب کئی ماہ 

سے ادھار لے کر کام چلا رہے ہو۔ 


میں الٹا شرمندہ ہوجاتا کہ واقعی بڑا گناہ کر بیٹھا تھا۔ قوم اپنی اپنی مرضی

 کے لیٹروں ہاتھوں لٹ کر خوش تھی اور میں ان کےلوٹے ڈھائی سو 

ارب بچا کر اپنے تئیں بڑا تیر مارچکا تھا۔ اب کئی ماہ سے گھر بیروزگار بیٹھا

 زخم چاٹ رہا تھا۔


خیر بات GIDC سکینڈل تک نہیں رکی تھی بلکہ علی زیدی صاحب پر

 بھی چند اسٹوریز فائل کی تھیں جس میں ان کے ایک آئی ٹی کمپنی کے

 دوست کے چند بڑے بڑے کارنامے شامل تھے۔ علی زیدی اسلام آباد

 میں اپنے اس دوست کے گھر رہتے تھے جسے بعد میں وہ وزیراعظم خان

 کے ساتھ چین لے گئے اور واپسی پر اس دوست کو پشاور میٹرو میں 84

ملین ڈالرز کا کنڑیکٹ ملا۔ بعد میں پتہ چلا کہ اس دوست کے خلاف ایف

 ائی اے کے پاس مقدمہ چل رہا تھا۔ وہ سترہ کروڑ کا کنڑیکٹ تھا جو اس

 دوست نے سی ڈی اے کے ساتھ کیا اور اسے پورا نہ کیا تھاجس پر 

مقدمہ درج ہوا تھا۔ جو بندہ سترہ کروڑ کا کنڑیکٹ پورا نہیں کرسکا تھا اسے

 اب پشاور میں چوراسی لاکھ ڈالرز کا کنٹریکٹ مل گیا تھا اور ایف آئی اے

 میں وہ مقدمہ ابھی چل رہا تھا۔اب علی زیدی صاحب وہاں کھڑے مجھ

ے اپنے تئیں چڑا رہے تھے کہ آپ کچھ بھی کر لیں ہمارا کچھ نہیں بگاڑا

 جا سکتا۔ ہم یہاں اس ملک پر دو ہزار اٹھائیس تک حکمرانی کریں گے۔


ان سب کا منصوبہ تھا کہ نومبر 2022 میں جنرل فیض آرمی چیف بنیں

 گے۔ اگلے سال 2023 کے وسط میں جنرل الیکشن ہوں گے جو جنرل

 فیض اس طرح جتوائیں گے جیسے انہوں نے جنرل باجوہ ساتھ مل کر

 2018 میں جتوایا تھا۔ بدلے میں انعام کے طور پر جنرل باجوہ کو توسیع دی

 گئی۔ ان کے بعد جنرل فیض نے آرمی چیف بننا تھا۔ عمران خان کے

 ایک اور گرویدہ جنرل جنہوں نے ففتھ جنریشن وار کی بیناد رکھی تھی نے 

ڈی جی آئی ایس آئی بننا تھا اور کام وہیں سے شروع کرنا تھا جہاں سے

 چھوڑ کر جنرل فیض نے آرمی چیف بننا تھا۔ 


ایک دوست کہتا تھا جنرل فیض میں وہ سب خوبیاں موجود ہیں جو 

انہیں پاکستان کا پیوٹن بنا دیں گی۔ عمران خان اگلے الیکشن سے

 پہلے قانون میں تبدیلیاں یا ریفرنڈم کے زریعے صدارتی نظام کی بیناد 

رکھیں گے اور ترکی کے طیب اردگان کی طرح صدر بن کر بے رحمی

 سے حکمرانی کر کے پورے ملک کو سیدھا کر دیں گے۔


ان دنوں ہر طرف صدارتی نظام کے حق میں عمران خان تقریریں

 کرتے پائے جاتے تھے اور اس کے فوائد قوم کو بتاتے تھے۔ وہ 

پاور میں آئے تو پارلیمانی نظام کی بدولت تھے لیکن انہیں طیب

 اردگان رول ماڈل اچھا لگتا تھا۔ طیب اردگان نے بھی تین دفعہ

 وزیراعظم بن کر سوچا تھا کہ چھوڑ یار وزیراعظم بھی کوئی عہدہ ہے،

 بندہ بنے تو صدر بنے اور روس کے صدر پیوٹن کی طرح اہنی ہاتھ

 سے اپنے مخالفین سے نمٹے۔ طیب اردگان کے رول ماڈل پیوٹن 

تھے اور صدر بنتے ہی طیب نے صدر پر تنقید پر جیل کی سزا رکھ دی۔

 پیوٹن کی طرح اپنے مخالفوں کو ناکوں چنے چبوا دیے۔


 یوں عمران خان کو بھی وہی شوق چرایا کہ انہیں بھی پیوٹن اور 

طیب اردگان کی طرح وزیراعظم کی بجائے صدر بننا چاہئے۔

 وزیراعظم بھی کوئی نوکری ہے جہاں آپ کو پوری پارلیمنٹ کو

 جواب دینا پڑتا ہے۔ آپ کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش 

کر کے ہٹایا جاسکتا ہے۔ اپوزیشن کی باتیں سنیں، صدر بن کر

 جہاں آپ کے پاس بہت اختیارات آجاتے ہیں وہیں آپ کو

 اتنی جلدی صدر کی کرسی سے نہیں ہٹایا جاسکتا جیسے وزیراعظم 

کو ہٹا سکتے ہیں۔ انہیں بھی طاقتور صدر بننا تھا اور اس گیم کے 

لیے وہ خود کو عرصے سے تیار کررہےتھے۔


اس پورے کھیل میں جنرل فیض حمید کا کلیدی کردار ہونا تھا

 جسے میرے دوست مسٹر پیوٹن کہتے تھے۔ میں ان دوستوں کو 

خوش دیکھ کر کہتا تھا زرا پڑھ لیں مسٹر پیوٹن کون ہیں اور ان

 کا شغل کیا ہے خصوصا میڈیا اور مخالفین کو کیسے ہینڈل کرتے 

ہیں۔ آپ جو جنرل فیض کو عمران خان کا پیوٹن بنا کر ابھی سے

 چسکے لے رہے ہیں کل یہی چوک میں کوڑے مروائیں گے۔


خیر علی زیدی ان دنوں عسکری اداروں کے بڑے قریب تھے

 بلکہ لاڈلے تھے۔ ان کے خلاف میرے ایک اور دوست نے 

امریکہ سے چند خطرناک دستاویزات ڈالرز خرچ کر کے نکلوائی 

تھیں۔ جب وہ خبر علی زیدی تک پہنچی تو انہوں نے ایک شادی 

میں موجود ایک جنرل سے اس رپورٹر کو سفارش کرائی کہ جانے 

دو یار۔


ان دنوں اگر یاد ہو تو جنرل باجوہ بھی اپنے ہاں آرمی ہاوس رات

 کو اینکرز کو بلا کر دھمکیاں دیتے تھے کہ اگر وہ عمران خان کے خلاف

 تنقید کرنے سے باز نہ آئے اور مسائل پیدا کرنا بند نہ کیے تو پھر انہوں 

نے پانچ ہزار لوگوں کی فہرست بنا رکھی ہے جنہیں ختم کر کے ملک

 کو ترقی یافتہ بنایا جاسکتا ہے۔ ہمارے صحافی دوست محمد مالک جو اس 

ملاقات میں موجود تھے کچھ بولے تو جنرل باجوہ نے کہا آپ صحافیوں 

کے نام بھی اس میں ڈالے جاسکتے ہیں۔ 


( بعد میں محمد مالک نے مجھے خود اس بات کی تصدیق کی تھی)۔ اس

 وقت کے وفاقی وزیرفیصل ووڈا نے بھی ایک ٹی وی شو میں کہا تھا 

کہ پانچ ہزار بندے مار دیں تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ یہ سب

باتیں اس وقت کھلے عام ہورہی تھیں جب عمران خان وزیراعظم 

تھے۔ یہ خون ریزی اور قتل عام کی دھمکیاں ٹی وی پر دی جارہی 

تھیں، اور آرمی چیف صحافیوں کے ساتھ اس فہرست کی موجودگی کی

 تصدیق کرکے انہیں ڈرا رہا تھا۔ 


کہا جاتا ہے کہ اس طرح کی ایک فہرست سابق آرمی چیف جنرل 

آصف نواز نے بھی نواز شریف کے پہلے دور میں تیار کی تھی لیکن زندگی

 نہ مہلت نہ دی۔ اگرچہ کچھ لوگ جنرل آصف کی اس فہرست کی بات کو

 درست نہیں مانتے لیکن اس دور میں بھی یہ بات عام تھی۔


جنرل آصف نواز ہوں یا جنرل باجوہ وہ اپنی اپنی پانچ ہزار لوگوں کی فہرست

 ساتھ لے گئے۔ عمران خان طیب اردگان کی طرح صدر نہ بن سکے جو

 روس، سعودی یا چینی انداز میں پاکستان میں سب کو پھانسیاں لگاتا۔ 

جنرل فیض آرمی چیف بن کر پیوٹن نہ بن سکے۔ جبکہ ہمارے دوست علی

 زیدی 2028 تک مسلسل حکومت نہ کرسکے اور آج خود قید ہیں۔


حضرت علی (رع)کا قول یاد آیا کہ میں نے اپنے رب کو اپنے ارادوں کے

 ٹوٹنے سے پہچانا۔ ایک سکیم یا پلاننگ تکبر اور غرور اور طاقت کے نشے 

میں ڈوبے انسان زمین پر بناتے ہیں جبکہ ایک سکیم خدا اسمانوں پر بیٹھ 

کر بناتا ہے اور ہم سب جانتے ہیں آخری فیصلہ یا رضا کس کی چلتی ہے۔

منگل، 23 مئی، 2023

طریقہ واردات۔۔۔۔۔۔۔ محمد طارق خان

0 Comments

جھوٹا پراپیگنڈہ کیسے کیا جاتا ہے؟ وہ بیانیہ کیسے بنایا جاتا ہے جس

 کا وجود ہی نہیں؟ پی ٹی آئی کا فیک نیوز نیٹ ورک کیسے چلتا ہے؟

 اس کی ایک مثال یہ ہے ۔۔۔


ایک جعلی تصویر جعلی شناخت سے بنائے پی ٹی آئی ٹویٹر اکاؤنٹ

 سے جس کے 11 ہزار فالوورز (ممکنہ طور پر وہ بھی جعلی) ہیں

 ایک من گھڑت جھوٹی کہانی ٹویٹ کی گئی، کہ ملٹری انٹیلیجنس

 نے آرمی چیف کو یہ رپورٹ دی ہے کہ حالیہ جلاؤ گھیراؤ اور 

جناح ہاؤس پر حملوں میں وفاقی حکومت کا ایک ادارہ انٹیلیجنس

 بیورو شامل ہے۔ اب نوٹ کریں کہ مبینہ طور پر (جھوٹ)

ایک انتہائی خفیہ رپورٹ جو ملٹری انٹیلیجنس نے آرمی چیف 

 کو دی ہے اس کی اطلاع کسی سڑک چھاپ ٹٹ پونجیئے کے

 ذریعے مل رہی ہے، جس کی نہ شناخت اصلی،نہ تصویر نہ اکاؤنٹ،

 نہ فالوررز، جسے حقیقی زندگی میں شاید ہی کوئی جانتا ہو۔ 


مگر ایسے بے ہودہ ذریعے سے شروع ہونے والی ایسی لغو بات کو

 پی ٹی آئی کے ہزاروں اصلی نقلی اکاؤنٹس سے آگے بڑھایا گیا، کہانی

 ٹویٹر سے نکل کو واٹس ایپ گروپس اور فیس بک پر اگئی، سیاست، 

حقیقت، گلف میگ اور اس طرح کے دیگر ناموں سے بنائے جعلی

 چینلز اور ویب سائٹ پر اسے ڈال دیا گیا، پھر عادل راجہ اور معید 

پیرزادہ نے اس کا اپنے ٹویٹر اکاؤنٹس سے تذکرہ کیا، اس کے بارے 

میں پہلے ٹویٹس کیئے، پھر یو ٹیوب پر وڈیوز بنا کر پورا وی لاگ یا پروگرام 

کر دیا۔ یوں ایک جھوٹی کہانی جس کا کوئی سر ہے نہ پاؤں ایک جعلی

 اکاؤنٹس سے ٹوِٹر پر شروع ہوئی اور معید پیرزادہ، صابر شاکر، ہارون

 رشید، اوریا مقبول جان عمران ریاض (جو فی الحال غائب ہے)

 اور حسن نثار جیسے معروف صحافیوں کے ٹوِٹر، فیس بک اور یوٹیوب

 اکاؤنٹس کے ذریعے پوری دنیا میں پھیلا دی جائے گی۔


اور جھوٹے پروپیگنڈہ کی اس مہم کا نشانہ بنیں گے ہمارے معصوم 

بھولے بھالے منظور ملک جیسے دوست، جو ان جعلی اینکرز اور صحافی کو

 اپنی معلومات کا ذریعہ سمجھتے ہیں، اور اسے پھیلانے میں لندن میں بیٹھے

 میرے بھائی راشد جیسے اوورسیز پاکستانیوں کا بڑا ہاتھ ہے جو ایسی من 

گھڑت کہانیوں پر نہ صرف یقین کرلیتے ہیں، بلکہ سوشل میڈیا پر انہیں

 لائک اور سبسکرائب کرکے ان جھوٹوں کی مالی مدد اور ان کا جھوٹا بیانیہ

 دنیا بھر میں پھیلا کر نادانستہ طور پر نہ صرف ملک اور اداروں کو بدنام کرنے

 کی مذموم مہم کا شکار ہو جاتے ہیں، بلکہ جھوٹ پھیلانے کا گناہ بھی 

کماتے ہیں۔ کسی کو نہ ثبوت کی ضرورت نہ تحقیق کی۔ 


کچھ دنوں بعد عمران خان اپنی تقاریر اور ملکی و غیر ملکی چینل اور اخبارات کو

 انٹرویو میں یہ من گھڑت کہانی سنایا کریں گے اور کہیں گے کہ باوثوق ذرائع کے 

حوالے سے یہ بات پہلے سے شائع شدہ ہے۔ 


دیگر پی ٹی آئی رہنما بھی اس کا حوالہ دینا شروع کر دیں گے، جیسے کہ جناح

 ہاؤس پر حملہ آور مجمعے کو اکسانے والے ایک شخص کو ایجنسی کا بندہ کہہ کر 

پہلے پراپیگنڈہ اکاونٹس نے ٹویٹ کیئے، بعد ازاں پی ٹی آئی رہنماؤں نے اس

 بیانیئے کو اپنا لیا، اور جب وہ شخص گرفتار ہوا، تو پی ٹی آئی ہی کا کارکن عمران

 محبوب نکلا، لیکن اس پراپیگنڈے کی نہ تردید ہوئی، نہ جھوٹ بولنے،

 پھیلانے اور اداروں کو بدنام کرنے پر کسی ندامت یا شرمندگی کا اظہار

 ہوا۔


اب یہ جھوٹا پراپیگنڈہ مسلسل کاپی، فارورڈ اور ری ٹویٹ ہوتا جائے گا

 اور جھوٹ اتنا بولو کہ سچ لگنے لگے کے مصداق ہمارے کئی بھولے 

بھالے عبداللہ سیٹھ جیسے دوست اسے سچ سمجھ کر اپنی گفتگو میں کووٹ

 کیا کریں گے۔ 


یہ جھوٹ اور پروپیگنڈہ کمان سے نکلے تیری کی طرح ہے آپ اسے واپس

 نہیں لے سکتے۔ اس لئے درخواست ہے کہ کوئی بھی بات آگے بڑھانے

 سے پہلے کچھ تحقیق کرلیں، تحقیق کے ذرائع دستیاب نہیں تو کم از کم بنیادی

 سوالات ضرور اٹھائیں، ثبوت مانگیں، حوالہ مانگیں، کچھ منطقی استدلال

 کریں, محض سنی سنائی پر یقین نہ کریں نہ ایسے منفی ملک دشمن پروپیگنڈے

 کو آگے بڑھانے میں بطور آلہ کار استعمال ہوں، یہ آپ کا دینی اخلاقی اور قانونی

 فریضہ ہے 


و ما علینا الا البلاغ المبین۔ 

23 مئی 2023

پس از تحریر 

درج ذیل 

جھوٹے ٹویٹ پر مبنی معید پیرزادہ کا وی لاگ ۔۔۔ 

https://youtu.be/ahk1nzpKTtI

پیر، 22 مئی، 2023

چائے کی شاندار ثقافت۔۔۔۔۔۔۔ شاہد افراز خان

0 Comments


 ابھی حال ہی میں اکیس مئی کو چائے کا عالمی دن منایا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 2019 میں ہر سال اکیس مئی کو چائے کے عالمی دن کے موقع پر منانے کا اعلان کیا تھا۔یہ ایک خاص دن ہے جو دنیا بھر میں چائے کی تاریخ اور گہری ثقافتی اور معاشی اہمیت کو تسلیم کرتا ہے۔



 اقوام متحدہ کے مطابق پانی کے بعد چائے دنیا میں دوسرا سب سے 

زیادہ استعمال ہونےوالا مشروب ہے اور اس کی پیداوار اور پرو

سیسنگ نے انتہائی غربت کے خاتمے، بھوک کے خلاف جنگ، 

خواتین کو بااختیار بنانے اور زمینی ماحولیاتی نظام کے پائیدار استعمال

 میں کردار اداکیا ہے۔ دریں اثنا، دیہی ترقی اور پائیدار معاش کے

 لئے چائے کی اہمیت کے بارے میں عوامی شعور اجاگر کرنا اور 

چائے کی ویلیو چین کو بہتر بنانا پائیدار ترقی کے لئے 2030 کے ایجنڈے

 کے نفاذ کے مطابق ہے۔


تاریخی اعتبار سے چائے کی پتیاں سب سے پہلے چین میں دریافت کی گئی

 تھیں۔ وسیع چینی سر زمین پر ہزاروں سالوں سے چائے کی مقبولیت میں

 کبھی کمی نہیں آئی ہے۔جدید چین میں ، جہاں روزمرہ زندگی کی رفتار تیز سے 

تیزتر ہوتی جارہی ہے، چائے کے فروغ کو بھی ایک نمایاں قوت ملی ہے۔

 منفرد جغرافیائی حالات اور ٹھوس اور گہرے تاریخی ماخذ کی بدولت چین

 دنیا بھر میں چائے کے اہم پیداواری ممالک میں سے ایک ہے، جہاں چائے

 کے باغات 32 لاکھ ہیکٹر سے زائد رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں اور چائے کی

 پیداوار 30 لاکھ ٹن سے بھی زائد ہے۔ یہ پیمانہ دنیا بھر میں چائے کے تمام 

باغات کے مجموعی رقبے اور پیداوار کے نصف کے مساوی ہے۔علاوہ

 ازیں چائے کی کھپت کے لحاظ سے بھی چین سب سے بڑا ملک ہے۔

 چین میں چائے کی سالانہ کھپت 23 لاکھ ٹن سے بھی زائد ہے ، جو دنیا کی

 مجموعی کھپت کا 40 فیصد ہے۔چائے کی فروخت کا حجم 300 بلین یوان

 تک پہنچ سکتا ہے، جس سے کروڑوں چینی خاندانوں کی پسندیدگی اور مانگ

 کی عکاسی ہوسکتی ہے۔


یہی وجہ ہےکہ چائے کے عالمی دن کی مناسبت سے چین بھر میں مختلف

 تقریبات کا انعقاد کیا گیا۔اس حوالے سے چائے کی ثقافتی، سماجی اور معاشی

 قدر کے بارے میں عوامی شعور اجاگر کرنے کے لیے اسٹیج پرفارمنس، 

چائے کی ثقافت پر سیمینارز اور نمائشوں سمیت دیگر تقریبات کا انعقاد کیا گیا۔

اس موقع پر مہمانوں ، اسکالرز اور غیر مادی ثقافتی ورثے سے وابستہ افراد

 نے چائے کی ثقافت کی تخلیقی تبدیلی اور ترقی، دیہی زندگی، اور بین الاقوامی

 سطح پر چائے کی ثقافت کو مقبول بنانے پر وسیع تبادلہ خیال کیا ، جس کا

 مقصد چین کی طویل المیعاد اور رنگا رنگ چائے کی ثقافت کو غیر معمولی ثقافتی

 ورثے کے تحفظ اور فروغ کے نقطہ نظر سے ظاہر کرنا ہے۔یہ امر بھی قابل

 زکر ہے کہ چین کی روایتی چائے پروسیسنگ تکنیک اور اس سے وابستہ سماجی

 روایات کو اقوام متحدہ کی تعلیمی، سائنسی اور ثقافتی تنظیم (یونیسکو) کے غیر مادی

 ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔


حالیہ برسوں میں چین میں چائے کی فروخت میں مستحکم طور پر اضافہ جاری 

ہے۔ملک میں چائے کی بڑی تجارتی منڈیوں کی تعداد تیس سے بھی زائد ہے ،

اور جہاں تجارتی حجم 30 ارب سے تجاوز کرچکا ہے۔ صوبہ جہ جیانگ، چائے

 کی پیداوار کے لحاظ سے نمایاں ترین علاقہ ہے۔ جہاں چائے کا تجارتی حجم 

ملک کے مجموعی حجم کے نصف سے زائد ہے۔ ای کامرس کی ترقی کے ساتھ

 چائے کی بہت سی منڈیاں اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے صارفین کے ساتھ 

براہ راست رابطہ قائم رکھنے کی کوشش کر رہی ہیں تاکہ صارفین آسانی سے

 اچھی قیمت میں معیاری چائے خریدیں۔حالیہ برسوں میں چین میں چائے

 کے اہم پیداواری علاقوں میں چائے سے وابستہ سیاحت کو بھی فروغ دینے

 کی بھرپور کوشش کی گئی ہے۔ حیاتیاتی وسائل سے استفادہ کرتے ہوئے چائے

 سے وابستہ سیاحتی پروگراموں میں مستقل اضافہ کیا جا رہا ہے۔ یوں

 چائے کے باغات نہ صرف چائے کی پیداوار بلکہ تفریح اور سیاحت کے لیے

 بھی قابل دید مقام بن چکے ہیں۔ چائے کی ثقافت کی نمائش اور چائے سے 

متعلق معلومات کی فراہمی، ایسی سرگرمیاں لوگوں کو چائے کے بارے میں

 جاننے کے مواقع فراہم کرتی ہیں اور یہ بتاتی ہیں کہ چائے کی چھوٹی پتیوں کی قدر

لامحدود ہے۔ 


چین میں چائے کی یہ چھوٹی سی پتی ، نہ صرف باغات سے کروڑوں گھروں

 تک پہنچائی جاتی ہے ، بلکہ چین سے دنیا بھر کو بھی جا رہی ہے۔ چین چائے

 کی برآمد کے لحاظ سے کینیا کے بعد دوسرا بڑا ملک ہے۔ حالیہ پانچ سالوں

 میں چین نے چائے کی برآمد کا پیمانہ 3 لاکھ 5 ہزار ٹن برقرار رکھا ہے۔برآمدی

 حجم میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور مالیت 2 ارب امریکی ڈالرز سے بھی

 زائد ہے۔ درجنوں ٹن چائے چین سے دنیا کو فروخت کی جاتی ہے، جن میں سے 

افریقہ ، ایشیا اور یورپ تین اہم منڈیاں ہیں۔2013 میں چین کے صدر

مملکت شی جن پھنگ نے "شاہراہ ریشم اقتصادی پٹی " اور 21 ویں صدی

 کی میری ٹائم سلک روڈ " کی مشترکہ تعمیر کے اہم انیشٹیو پیش کئے تھے۔ اس 

کی روشنی میں چین اور دی بیلٹ اینڈ روڈ کے رکن ممالک کے درمیان چائے 

کی تجارت بھی بڑھ رہی ہے۔قدیم زمانے کی شاہراہ ریشم کی پرانی تاریخ نئے

 عہد میں ایک نئی کہانی بیان کر رہی ہے۔آج چین کی برآمد کردہ چائے کا 25 

فیصد دی بیلٹ اینڈ روڈ کے رکن ممالک کو جاتا ہے۔وسیع پیمانے پر چائے کی

 کاشت ، مشینی چنائی ، بہتر پراسیسنگ اور چائے کی بین الاقوامی فروخت نہ

 صرف چین کی چائے کی صنعتی جدیدیت کی رفتار کو تیز کر رہی ہے بلکہ نئے

 دور میں چائے کی ثقافت کو نئی توانائی بھی فراہم کر رہی ہے ، جس سے چائے 

کے ورثے کو نئی پہچان مل رہی ہے۔









جمعہ، 19 مئی، 2023

پاکستان بنگلہ دیش تقابلی جائزہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔محمد طارق خان

0 Comments

                  

سوشل میڈیا پر گزشتہ کچھ عرصے سے مایوسی کا شکار خاص حلقہ  پاکستان، پاکستانی معیشت، اداروں اور مستقبل کے حوالے سے انتہائی گمراہ کن خبریں پھیلا رہا ہے،انہی خبروں

میں ایک پاکسثان اور بنگلہ دیش کے درمیان تقابل بھی ہے، 

جس میں بنگلہ دیش کو ترقی کے ایک ماڈل کے طور پر پیش کیا جا

رہا ہے، 

کافی عرصے سے ایسے دعوے کئے جارہے ہیں جیسا کہ بنگلہ دیش

 میں بلٹ ٹرین کا اجراء، حاجیوں کے لئے کثیر المنزلہ بحری

 جہازوں کی تعمیر اور لاکھوں حجاج کو لے کر حرمین شریفین روانگی

 وغیرہ، اس طرح کے مضحکہ خیز اور بے بنیاد دعوؤں نے اس بات

 کی تحریک دلائی کہ دونوں ممالک کے درمیان مختلف شعبہ ہائے

 زندگی کا ایک مختصر مگر جامع اور مصدقہ اعداد و شمار پر مبنی تقابلی

 جائزہ پیش کیا جائے جس کا مآخذ عالمی بینک، آئی ایم ایف، اقوام 

متحدہ اور محکمہ شماریات جیسے مستند ادارے ہوں،

 جو نہ تو ہمارے چاچے اور نہ بنگلہ دیش کے مامے لگتے ہیں۔

 البتہ اعداد و شمار میں مآخذ اور طریقہ کار کے فرق کی وجہ سے کچھ

 اختلاف ہو سکتا ہے۔


پاکستان کی کل ابادی کم و بیش 23 کروڑ جبکہ بنگلہ دیش کی 17

 کروڑ ہے، پاکستان کا کل رقبہ تقریباً آٹھ لاکھ مربع میل جبکہ بنگلہ

 دیش کا کل رقبہ ایک لاکھ پچاس ہزار مربع کلومیٹر سے کچھ کم ہے۔

 آبادی اور رقبہ دونوں لحاظ سے پاکستان بڑا ملک ہے مگر بنگلہ دیش

 دنیا کا سب سے گنجان آباد ملک سمجھا جاتا ہے جہاں ہر مربع کلو میٹر 

پر ایک ہزار ایک سو ستاون لوگ رہتے ہیں جبکہ پاکستان میں یہ 

تناسب دو سو اکیانوے ہے۔ پاکستان میں ابادی میں اضافہ کا

 تناسب ایک اعشاریہ آٹھ جبکہ بنگلہ دیش میں ایک اعشاریہ ایک

 ہے۔ 


معیشت کی بات کی جائے تو اس شعبے میں بنگلہ دیش نے گزشتہ

 چند سالوں میں کافی ترقی کی ہے، پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار 

تقریباً 348 ارب امریکی ڈالر ہے جبکہ بنگلہ دیش کی جی ڈی پی تقریباً 

416 ارب امریکی ڈالر ہے۔


 پاکستان کی فی کس آمدنی امریکی ڈالر 1,505 جبکہ بنگلہ دیش کی 2,458 

امریکی ڈالر ہے۔


 پاکستان کا جی ڈی پی سے غیر ملکی قرضوں کا تناسب تقریباً 32.98

 فیصد ہے جبکہ بنگلہ دیش کا مجموعی قومی پیداوار سے بیرونی قرضوں کا

 تناسب تقریباً 22.71 فی صد ہے۔


 پاکستان کا کل بیرونی قرضہ 115 ارب امریکی ڈالر کے لگ بھگ ہے

 جبکہ بنگلہ دیش کا کل بیرونی قرضہ تقریباً 94.5 بلین امریکی ڈالر ہے۔

 پاکستان کی کل برآمدات 35 بلین امریکی ڈالر کے لگ بھگ ہیں جبکہ 

اس کی درآمدات 78 ارب امریکی ڈالر ہیں جبکہ بنگلہ دیش کی برآمدات

 48.76 ارب امریکی ڈالر کے لگ بھگ ہیں جبکہ اس کی درآمدات 85

 ارب امریکی ڈالر ہیں۔


 پاکستان میں غربت کی شرح تقریباً 25.6 فیصد ہے، اور بے روزگاری

 کی شرح تقریباً 4.5 فیصد ہے. اس کے مقابلے میں بنگلہ میں غربت کی

 شرح تقریباً 21.6، اور بے روزگاری کی شرح تقریباً 4.4 فی صد ہے۔


اکانومسٹ انٹیلی جنس یونٹ کی طرف سے شائع کردہ ڈیموکریسی انڈیکس

 میں پاکستان 167 ممالک میں 105 ویں نمبر پر ہے۔  اس کا سکور 10 میں

 سے 4.00 ہے، اسے "ہائبرڈ حکومت" کا درجہ دیا گیا ہے۔ بنگلہ دیش کی 

صورت حال بھی کچھ زیادہ بہتر نہیں وہ 167 ممالک میں سے 76 ویں

 نمبر پر ہے، 10 میں سے اس کا اسکور  5.88 ہے، اسے "ڈھونگ جمہوریت" 

کے درجہ پر رکھا گیا ہے۔


 رپورٹرز وِد آؤٹ بارڈرز کے شائع کردہ ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں

 پاکستان 180 ممالک میں 145 ویں نمبر پر ہے۔ اس کا اسکور 45.75 

ہے، جبکہ بنگلہ دیش 180 ممالک میں 152 ویں نمبر پر ہے، جس کا اسکور

 48.40 ہے، یعنی دونوں ہی ممالک آزادی صحافت کے لیے "مشکل 

صورتحال" کے درجے میں ہیں۔


 اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کی طرف سے شائع کردہ انسانی ترقی

 کےانڈیکس میں پاکستان 189 ممالک میں 154 ویں نمبر پر ہے۔  اس

 کی ایچ ڈی آئی ویلیو 0.557 ہے، بنگلہ دیش 189 ممالک میں 133 ویں 

نمبر پر ہے، جس کی ایچ ڈی آئی ویلیو 0.632 ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے 

کہ دونوں ممالک نے "انسانی ترقی کے معاملے میں درمیانی درجہ" پر ہیں۔


قانون کی حکمرانی کے انڈیکس میں پاکستان 139 ممالک میں 120 جبکہ بنگلہ

 دیش 115 ویں نمبر پر ہے۔



ورلڈ جسٹس پروجیکٹ رُول آف لاء انڈیکس میں پاکستان کا سکور 1.00 

میں سے 0.44 ہے، بنگلہ دیش کا سکور بھی 1.00 میں سے محض 0.46 ہے،

 یعنی دونوں ممالک انصاف اور قانون کی حکمرانی کے معاملے میں کم ترین

 سطح کے درجہ پر ہیں۔


شعبہ تعلیم کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں 192

 یونیورسٹیاں، 11,996 کالجز، 52,131 سیکنڈری اسکول، اور 

213,008 پرائمری اسکول ہیں۔ اس کے مقابلے میں، بنگلہ دیش میں

 136 یونیورسٹیاں، 1,564 کالج، 22,685 سیکنڈری اور 115,276

 پرائمری اسکول ہیں۔


 پاکستان میں ثانوی اور اعلی تعلیمی اداروں میں اندارج شدہ طلبہ کی

 تعداد 4,874,841 جبکہ بنگلہ دیش میں میں 3,204,034 طالب علم 

ثانوی اور اعلٰی تعلیمی اداروں میں مندرج ہیں۔ بنگلہ دیش میں پاکستان

 کے مقابلے میں اساتذہ کی تعداد بھی کم ہے، پاکستان کے 1,790,927

 کے مقابلے میں بنگلہ دیش میں 1,309,787 اساتذہ ہیں۔


بنگلہ دیش میں 596 کے مقابلے پاکستان میں 50 بستروں یا اس سے زیادہ 

کے 1,257 ہسپتال ہیں۔ صحت کی دیکھ بھال کرنے والے اہلکاروں کی

 بات کی جائے تو پاکستان میں بنگلہ دیش کے مقابلے میں فی 10,000 آبادی

 میں ڈاکٹروں کی تعداد زیادہ ہے، بنگلہ دیش کے 5 کے مقابلے پاکستان میں

 ہر دس ہزار نفوس پر 8 ڈاکٹر ہیں۔ پاکستان میں ہر 10,000 آبادی پر نرسوں

 اور دائیوں کی تعداد بھی زیادہ ہے، بنگلہ دیش کی 11 کے مقابلے پاکستان میں

 یہ تعداد 17 ہے۔


پاکستان دنیا میں قدرتی گیس پیدا کرنے والے سب سے بڑے ممالک میں 

سے ایک ہے، جس کے پاس 19.5 ٹریلین کیوبک فٹ (TCF) کے ثابت

 شدہ ذخائر ہیں۔ اس کے برعکس، بنگلہ دیش کے پاس قدرتی گیس کے

 ذخائر بہت کم ہیں، جن کا تخمینہ لگ بھگ 10.6 ملین مکعب فٹ ہے۔


 پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق اٹھاسی ہزار بیرل یومیہ خام تیل پیدا

 کرتا ہے، جبکہ بنگلہ دیش کی پیداوار محض چار ہزار بیرل یومیہ ہے۔


 پاکستان میں گیس پائپ لائنوں کا ایک وسیع نیٹ ورک ہے، جو ملک بھر

 میں تقریباً 12,500 کلومیٹر پر محیط ہے، اور گیس کی ترسیل اور تقسیم کا ایک

 وسیع، مربوط اور منظم نظام قائم ہے۔ بنگلہ دیش میں بھی گیس کی تقسیم 

کا نیٹ ورک موجود ہے، پورے ملک میں 7000 کلومیٹر پر محیط ہے۔


پاکستان میں تقریباً 40,600 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی مجموعی صلاحیت 

ہے، جس میں تھرمل ذرائع بشمول قدرتی گیس اور فرنس آئل کل صلاحیت

 کا تقریباً 65 فیصد ہیں۔ ہائیڈرو الیکٹرک پاور کل صلاحیت کا تقریباً 25 فیصد

 ہے، اس کے علاؤہ پاکستان میں سات جوہری، متعدد کوئلہ، ہوا اور شمسی

 توانائی کے پلانٹ بھی ہیں۔ اس کے برعکس، بنگلہ دیش کی بجلی کی کل

 نصب شدہ صلاحیت تقریباً 23,600 میگاواٹ ہے، جس میں تھرمل ذرائع 

کل صلاحیت کا تقریباً دو تہائی ہیں۔ بقیہ بجلی قابل تجدید ذرائع، خاص طور پر

 شمسی اور ہائڈل کے ذریعے پیدا کی جاتی ہے، بنگلہ دیش کے پاس کوئی جوہری

 پلانٹ نہیں ہے۔


 پاکستان کا بجلی کی تقسیم کا جال تقریباً 3 کروڑ دس لاکھ صارفین کے ساتھ

 نوے فی صد آبادی پر محیط ہے۔ جبکہ بنگلہ دیش میں تقریباً تین کروڑ چالیس

لاکھ صارفین ہیں، اور یہاں بھی تقریباً 90 فیصد ابادی کو بجلی تک رسائی 

حاصل ہے۔


 پاکستان اور بنگلہ دیش دونوں ماضی میں بجلی کی مسلسل بندش اور

 لوڈ شیڈنگ کے ساتھ بجلی کی طلب کو پورا کرنے کے لیے جدوجہد

 کرتے رہے ہیں۔ تاہم، دونوں ممالک نے حالیہ برسوں پیداوار

 بڑھانے میں نمایاں پیش رفت کی ہے، پاکستان کو 2013 میں تقریباً

 6,000 میگاواٹ کے خسارے کے سامنا تھا۔ پاکستان نے 2013

 سے 2018 تک کے عرصے میں بجلی کی پیداوار میں 1100 میگاواٹ 

کا اضافہ کیا اور 2020 میں تقریباً 5,000 میگاواٹ فاضل پیداوار

 کی صلاحیت حاصل کرلی، پاکستان میں موجودہ لوڈ شیڈنگ تقسیم 

کے نظام میں خرابیوں اور بجلی چوری کے سبب ہے، پیداواری

 صلاحیت کے حساب سے پاکستان میں لوڈ شیڈنگ نہیں ہونی چاہیئے،

 جبکہ بنگلہ دیش میں بجلی کی پیداوار اور طلب میں خسارہ 2015 میں

 تقریباً 2,500 میگاواٹ سے گر کر 2020 میں تقریباً 700 میگاواٹ 

رہ گیا۔ بنگلہ دیش کو آج بھی اس شعبے میں خسارے کا سامنا ہے۔

پاکستان میں تقریباً 264,000 کلومیٹر سڑکوں کا جال بچھا ہے، جس میں

 سے تقریباً 50 فی صد یعنی 132,000 کلومیٹر پختہ سڑکیں ہیں۔ اس کے

 برعکس، بنگلہ دیش میں تقریباً 22,500 کلومیٹر پختہ سڑکوں کا جال بچھا ہے۔ 


موٹر ویز کی بات کی جائے تو پاکستان میں پہلی موٹروے ایم ٹو 1997 میں

 مکمل ہوئی تھی، اور اس کے بعد سے مختلف مراحل میں موٹرویز کو 1,800

 کلومیٹر تک توسیع دی جاچکی ہے اور مزید پر تیزی سے کام ہو رہا ہے، پاکستان

 میں موٹرویز کافی جدید سہولیات سے آراستہ ہیں جیسے کہ سروس ایریاز،

 ریسٹ اسٹاپس اور متعدد لینز پر یک طرفہ ٹریفک، موٹروے پولیس اور

 دیکھ بھال و مرمت کا بھی اچھا انتظام ہے۔


 دوسری طرف، بنگلہ دیش میں موٹروے کا نظام موجود نہیں، صرف

 ایک آپریشنل ہائی وے، یعنی ڈھاکہ چٹاگانگ ہائی وے، ہے جو تقریباً

 190 کلومیٹر لمبی ہے۔ یہ ہائی وے محض چار لین پر مشتمل ہے، اور

 پاکستانی موٹر ویز کی طرح نہ تو جدید سہولیات سے آراستہ ہے نہ ہی اس

 کی دیکھ بھال اور مرمت کا معقول انتظام ہے۔


 پاکستان میں ریلوے پٹری کی کل لمبائی 11,881 کلومیٹر ہے، جس میں سے

 تقریباً 7,791 کلومیٹر براڈ گیج (1.676 میٹر) اور تقریباً 4,090 کلومیٹر تنگ گیج

 (1.000 میٹر) ریل پٹریاں ہیں۔ اس کے برعکس، بنگلہ دیش میں کل ریلوے

 پٹری کی لمبائی تقریباً 2,835 کلومیٹر ہے، جس میں سے محض 659 کلومیٹر براڈ 

گیج اور تقریباً 2,176 کلومیٹر میٹر تنگ گیج (1.000 میٹر) ہیں۔ 

 

 پاکستان میں تقریباً 151 ہوائی اڈے ہیں جن میں سے 11 بین الاقوامی

 ہوائی اڈے ہیں۔ اس کے برعکس، بنگلہ دیش میں صرف 19 ہوائی اڈے

 ہیں، جن میں سے صرف 3 بین الاقوامی ہوائی اڈے ہیں۔ 


چھ لاکھ پچاس ہزار نفوس پر مشتمل پاکستانی افواج دنیا کی چھٹی بڑی فوجی

 طاقت ہے، جب کہ بنگلہ دیش کی افواج ایک لاکھ ستر ہزار پر مشتمل ہے۔

 پاکستان کا دفاعی بجٹ سات اعشاریہ تین ارب امریکی ڈالر جبکہ بنگلہ دیش

 کا چار اعشاریہ آٹھ ارب امریکی ڈالر ہے۔ پاکستانی افواج کا بجٹ مجموعی

 سالانہ حکومتی اخراجات کا 18 فی صد جبکہ بنگلہ دیش کا 8 فی صد ہے۔ 


پاکستان کی فضائیہ کے پاس 871 جبکہ بنگلہ دیش کے پاس 169 مختلف

 النوع طیارے ہیں، پاکستانی بحریہ کے پاس کم و بیش دو سو بحری جہاز 

اور 9 آبدوزیں ہیں جبکہ آٹھ مزید تکمیل کے مختلف مراحل میں ہیں،

 اس کے مقابلے میں بنگلہ دیش کے پاس محض 80 بحری جہاز اور

2 آبدوزیں ہیں. پاکستانی مسلح افواج کے پاس تین سو سے زائد جبکہ بنگلہ 

دیش کے پاس 31 ہیلی کاپٹر ہیں۔ پاکستانی افواج کے پاس 3000 جدید

ترین جنگی ٹینک ہیں جبکہ بنگلہ افواج کے پاس محض 550 نسبتاً پرانے ٹینک

 ہیں۔ 


ان اعداد و شمار کی روشنی میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ جہاں معاشی شعبے

 میں اس وقت بنگلہ دیش کو معمولی برتری حاصل ہے وہیں بنیادی سہولتوں،

 مواصلاتی ڈھانچے، توانائی اور صنعتی شعبے میں پاکستان بنگلہ دیش سے کہیں

 آگے یا بہتر پوزیشن میں ہے۔


پاکستان کے پاس عمومی، کنٹینر اور تیل بردار 12 بڑے جہاز ہیں جبکہ بنگلہ 

دیش کے پاس ایسے جہازوں کی تعداد 71 ہے۔ 


کھیلوں کے میدان میں پاکستان کو بنگلہ دیش پر واضح برتری حاصل ہے۔

 پاکستانی کھلاڑیوں نے عالمی سطح زیادہ اور وسیع میدانوں میں کامیابیاں

 سمیٹی ہیں، اسکواش، ہاکی، کرکٹ، باکسنگ، ریسلنگ، ٹینس، اسنوکر اور 

ایتھلیٹکس کے مختلف شعبوں میں پاکستان نے اولمپکس سمیت عالمی سطح

 پر کئی اعزازات حاصل کئے ہیں۔ اس کے برعکس بنگلہ دیش کو کوئی قابل ذکر 

کامیابی حاصل نہیں

 ہوئی۔


قوموں کی تاریخ میں اتار چڑھاؤ آتا رہتا ہے، پاکستان اور بنگلہ دیش کبھی

 یک جان تھے، 1971 میں علیحدگی کے بعد اگر بنگلہ دیش نے معاشی اور 

تجارتی شعبوں میں اپنے بڑے بھائی کو پیچھے چھوڑ دیا ہے تو یہ خوشی کی بات

 ہے اور ہمارے لئے بحیثیت قوم اور ہمارے فیصلہ سازوں کے لئے اس

 میں سیکھنے کے لئے بہت کچھ ہے۔