کسی کو گھنگھریالے بالوں والا کرکٹر قاسم عمر یاد ہے !وہی
جس نے1983میں آسٹریلیا کی تیز وکٹوں پر اس بے خوفی
سے بلے بازی کی کہ سب حیران ہوگئے ،پرتھ کی گولی وکٹ
پر پوری ٹیم میں صرف قاسم عمر ہی تھا جس نے آسٹریلوی
فاسٹ بولنگ کا بے جگری سے سامنا کیا اور تحسین پائی،
اس سیریزمیں رنز بنانے کی سب سے زیادہ اوسط قاسم عمر
کی رہی پھرانہی وکٹوں پر قاسم عمر نے دہشت کی علامت
سمجھے جانے والے ویسٹ انڈینز بولروں مائیک ہولڈنگ،
جوئیل گارنراور میلکم مارشل جیسی کالی آندھیوں کا سامنا کیا۔
قاسم عمر کے پاس جرات تھی اور اسٹائل بھی، کرکٹ مبصرین
اس کے روشن مستقبل کی پیشن گوئیاں کرنے لگےلیکن اس
کی جارحانہ صاف گوئی نے کیرئیر تباہ کردیا ،قاسم عمرنے بعض
پاکستانی کھلاڑیوں پر منشیات لے جانے اور استعمال کرنے کا
الزام لگایا جس پر کہرام بپاہوگیا ۔
کرکٹ میں اس وقت عمران خان کا طوطی بولتا تھا۔ عمران
خان نے بھی قاسم عمرکو آڑے ہاتھوں لیا اور قاسم عمر کے
لئے کرکٹ کے دروازے سات برس کے لئے بند ہوگئے یعنی
کیرئیر ہی ختم ہوگیا اور یہی نہیں وہ جس بینک کی طرف سے
کھیلتا تھا اسے وہاں سے بھی جواب مل گیا۔نوکری گئی،قاسم
عمر نے 2012 میں دیئے گئے ایک انٹرویومیں انکشاف کیا کہ مجھے
حسیب احسن نے وہ خط دکھایا تھاجس میں عمران خان نے
جنرل ضیاء الحق سے میری شکایت کی تھی، جنرل ضیاء الحق
عمران خان کو بہت پسندکرتے تھےاورکہتے تھے ریٹائرمنٹ کے
بعد وہ انکی حکومت کا حصہ بن جائیں لیکن تب کے عمران خان کا
کہنا تھا میں تو شریف سا آدمی ہوں میرا ’’ڈرٹی پالیٹکس ‘‘ سے کیا
تعلق ۔
حیرت انگیز طور پر بعد میں عمران خان نہ صرف سیاست میں
آئے اپنی جماعت بنائی کامیابیاں سمیٹیں بلکہ وہ ضیاء الحق
جو انھیں اپنا مقتدی بنانا چاہتا تھا ،ان کے صاحبزادے اعجاز
الحق کو اپنا مقتدی بنالیا،ہر انسان کی طرح عمران خان بھی
خوبیوں اور خامیوں کا مجموعہ ہیں۔ عمران خان کی خوبی ان کی
قوت فیصلہ اورسب سے بڑی خامی جارحانہ مزاج ہے ۔انہوں
نے کرکٹ ٹیم بھی کسی بادشاہ کی طرح چلائی اور پارٹی بھی اسی
انداز میں،وہ منزل تک پہنچنے کے لئے نئے راستے پر چلنے سے نہیں
گھبراتے ،انھوں نے اپنے پرستاروں کو سیاسی کارکنوں میں کامیابی
سے بدلا لیکن ان کی تربیت نہ کرسکے۔ مجھے دس پندرہ برس پہلے کی
کراچی میں بدنظمی سے بھرپور نیوز کانفرنسیں اور دورے یاد ہیں ،جن
میں ہٹو بچو کی آوازیں لگانے والے کارکن صحافیوں کو دھکے مارتے
تھے اور گالم گلوچ بھی کرجاتے۔ ایک بار ڈیفنس میں میڈیا سے
اتنی بدتمیزی اور دھکم پیل کی گئی کہ صحافی بائیکاٹ پر آ گئے۔ پھر یہ
معمول بنتا چلا گیا اور صحافیوں نے بھی اس مزاج کو قبول کر لیاالبتہ
پی ٹی آئی کو ایک لسانی فاشسٹ جماعت کا ’’برگر ایڈیشن ‘‘ ضرور
قرار دے دیا اور پھر تحریک انصاف نے اس پھبتی کی نہ صرف لاج
رکھی بلکہ وہ کچھ کردکھایا جو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔
سانحہ نو مئی کس کی سازش تھا ؟ کون کون ملوث تھا ؟ کس کا کیا کردار
تھا ور کون استعمال ہواس بارے میں بہت کچھ سامنے ہے ، اس کا
الزام پی ٹی آئی پر آرہا ہے، نوجوانوں کو اکسانے والے وڈیو کلپس موجود
ہیں،، جیو فینسنگ ہوچکی ہے ،نادرا کی مدد سے قومی دفاعی تنصیبات پر
حملہ آوروں کی شناخت اورگرفتاری کا عمل جاری ہے۔ بلاشبہ یہ کڑا
وقت ہے پی ٹی آئی نے آج تک ایسے کسی امتحان کا سامنا نہیں کیا۔
یہ اس کا پہلا امتحان تھا جس میں بری طرح ناکام ہوگئی ۔جو لوگ
عمران خان کو ریڈلائن کہتے تھے وہ زیبرا کراسنگ قرار دے کرمعافیوں
تلافیوں پر آگئے۔ جس نے پیشانی پر انگشت شہادت رکھ کر کہا کہ یہاں
گولی ماردو لیکن خان سے بے وفائی ممکن نہیں،اس بطل جیل کا عزم
صمیم جیکب آباد جیل کی گرمی میں تین روز میں پگھل گیا ،سب سے
زیادہ حیرت پی ٹی آئی کے پوسٹر بوائے اسد عمر پرہوئی راقم کو نہایت
باوثوق ذرائع سے علم ہوا کہ نو مئی کے بعد اسدعمر کی گرفتاری بھی
فرمائشی تھی ۔گرفتاری کے بعد انہوں نے ایک’’طاقتور‘‘ شخصیت
سے ملنے کی خواہش ظاہر کی جو پوری نہ ہوئی البتہ کسی سے ملاقات کرا
دی گئی اور پھر حالات دیکھ کر اسد عمر نے قاسم عمر بننے کے بجائے
اسدعمر ہی رہنا بہتر جانااورراستے جدا کرلئے۔ وہ جان گئے کہ شکووں
شکائتوں کے باوجود بھی پاک فوج عوام کی ریڈلائن ہے ، سرپرائز د
ینے والوں میں اسد عمر اکیلے نہیں، غچہ دے کر اور چار سرکاری اہلکاروں
کو معطل کروا کر لندن پہنچنے والے کپتان کے ایک وکیل وہاں ’’سہارے ‘‘
ڈھونڈتے اور یہ کہتے پائے جارہے ہیں کہ ’’میں تو آپ ہی کا آدمی ہوں‘‘
فیصل آباد کے نوجوان مرکزی رہنما بھی معافی نامہ کے لئے رابطے کررہے
ہیں ۔
یہاں سیاست کے ایک طالب علم کی حیثیت سے سوال تو بنتا ہے کہ
عمران خان نے اتنی جارحانہ پالیسی اپنائی ہی کیوں ؟انہیں اندازہ نہیں
تھا کہ عسکری شخصیات پر الزامات کا تسلسل کیا رنگ لائے گا، سوشل
میڈیا پر اداروں کے خلاف پروپیگنڈے سے وہ بے خبر تو نہ ہوں گے۔
وہ دیکھ رہے تھے کہ قوم میں کیا اشتعال کاشت کیا جارہا ہے ؟کیا انہوں
نے کبھی ایک سیکنڈ کے لئے بھی اس کے ردعمل کا سوچا اور آنے
والی مشکلات کے لئے اپنے ساتھیوں کو تیار کیا ؟انہوں نے اپنی کور
ٹیم کا معیار کیا رکھا ؟وہ جو چی گویرا بنے انقلابی اشعار پڑھتے تھے وہ تو جیلوں
میں مئی کے چار دن بھی نہ جھیل سکے ؟سچ یہ ہے کہ خان صاحب نے
اقتدار سے باہر آنے کے بعد لمبی لڑائی لڑنے کے بجائے پہلے راؤنڈ کو ہی
فائنل راؤنڈ بناڈالا اور اپنی کشتیاں جلادیں۔ وہ بھول گئے تھے کہ وہ
بنوامیہ کے بربری جرنیل طارق بن زیاد نہیں زمان پارک کے عمران
خان ہیں۔ وہ کشتیاں نہ جلاتے تو پھر جھپٹنے کے لئے پلٹ سکتے تھے۔
اب وہ مذاکرات کی بات کررہے ہیں کہ کوئی راستہ نکل آئے اور وہ
لوٹ جائیں لیکن کیا کیجئے کہ ساحل پر فقط سوختہ کشتیوں کی باقیات ہیں۔
0 Comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔