کراچی ( 50 نیوز الرٹ) سیاسی و سماجی رہنما لیا قت علی ساہی
نے K-4 کے منصوبے کا چوتھی مرتبہ وزیر اعظم کی طرف سے
افتتاح کئے جانے پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اس افتتاحی
تقریب میں بلا ول بھٹو زرداری نے کراچی کی عوام کی مشکلات کو
سامنے رکھتے ہوئے بہت خوبصورت انداز میں کراچی کی عوام کی
ترجمانی کی ہے کہ اگر کراچی کی عوام کو پینے کا صاف پانی حکومت فراہم
کردے تو آئی ایم ایف کو بھی لوگ بھول جائیں گے۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے بھی اسے سنجیدہ لیتے ہوئے اپنے وزراء کو
احکامات جاری کئے ہیں کہ آنے والے بجٹ میں K-4 کے منصوبے کے
لئے خصوصی طور پر فنڈ کو ارینج کیا جائے یقینا وفاقی اور سندھ حکومت کی
طرف سے حوصلہ افزاء کاوش ہے۔
تاہم اس پروجیکٹ کا پہلی مرتبہ 2015 ء میں سنگ بنیاد اُس وقت کے
وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے رکھا تھا اُس وقت اس کی لاگت کا
تخمینہ 25 ارب 55کروڑ لگایا گیا تھا اٹھ سال گزرنے کے باوجود بمشکل تیس
فیصد کام ہوا ہے اب اس پروجیکٹ کی لاگت ایک کھرب 26 کروڑ روپے تک
پہنچ گئی جو کہ بہت پیچیدہ مسئلہ بنتا جارہا ہے۔
دوسری طرف حافظ نعیم الرحمن نے آج دعویٰ کیا ہے کہ کے فور کا سنگ
بنیاد نعمت اللہ نے رکھا تھا یعنی کہ 2002 ء میں اس کا مطلب ہے کہ نعمت
اللہ سمیت مصطفی کمال ، وسیم اختر اورآنے والے ایڈمنسٹرزنے کے فور پر
کوئی کام نہیں کیا ،اس اثناء میں جب عمران خان کی وفاقی حکومت تھی تو اس
نے بھی گیارہ ارب روپے کراچی کیلئے اعلان کیا تھا جس میں کے فور منصوبہ
بھی شامل تھا اس کا مطلب ہے کہ سب کاغذی اعلان تھے حقیقت میں سب
عوام کے ساتھ دھوکہ تھا ۔
گزشتہ چند سالوں سے کراچی کی عوام صاف پانی کی بوند بوند کو ترس رہی ہے جو
لوگ زمینی بور بھی کرواتے تھے پانی کی سطح نیچے جانے کی وجہ سے گہرائی زیادہ
ہو گئی ہے جس کی وجہ سے لاگت میں لاکھوں روپے کا اضافہ ہو گیا ہے اس
مہنگائی کے دور میں ایک سفید پوش گھرانے کیلئے ناممکن ہو گیاکہ وہ پینے کا
پانی بھی خرید ے اور استعمال کیلئے بھی پانی خریدے۔
ان حالات میں جو موجوہ نظام ہے اس میں بھی پانی چوری کیا جارہا ہے
اگر اس چوری کو روکا جاسکے تو کچھ نہ کچھ عوام کی داد رسی ہو سکتی ہے۔
کینجھر جھیل سے کراچی کو پانی کی فراہمی کی جاتی ہے وہاں سے لے کر انڈسٹری
ایریا تک پانی کے غیر قانونی کنکشن ہیں جسے واٹر بورڈ کے افسران خو د تسلیم
کرتے ہیں جو فیکٹریوں سے بھتہ حاصل کرکے چوبیس گھنٹے پانی کی فراہمی کو
جاری رکھے ہوئے ہیں، ہائیڈرینٹس کی چوری الگ ہے ۔
شاہ فیصل کو جو لائن پانی فراہم کرتی ہے اسی لائن سے پی ایف کو پانی فراہم
کیا جاتا ہے اُس کی سطح اس قدر گہری ہے کہ شاہ فیصل کو پانی اس کے حصے
کا بھی فراہم نہیں کیا جاتا اس پر تمام ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں،
شاہ فیصل کی پانی کی ٹنکی کو ایک منصوبے کے تحت تباہ کردیا گیا ہے موٹرز ٹربین
کے ذریعے پانی کی فراہم کی جاتی ہے عملے کی ملی بھگت سے پانی کو وقت مقررہ پر
چھوڑا ہی نہیں جاتا جب تک تیسری موٹر نہ چلائی جائے ٹیل یعنی کہ جو آخر میں
رہائشی ہیں ان تک پانی کی فراہمی ممکن نہیں ہے ۔
اس مافیا کے خلاف سندھ حکومت کو ہنگامی بنیادوں پر آپریشن کرنا ہوگا تاکہ
موجودہ سسٹم میں رہتے ہوئے کراچی کی عوام کو پانی کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے،
انڈسٹری کو چوری پانی کی فراہمی کو بند کرنا ہوگا اور پی ایف کو پانی کی فراہمی کا وقت
مقرر کرنا ہوگا اور شاہ فیصل کی ٹنکی کو درست کرکے مساوی بنیادوں پر پانی کی فراہمی
کیا جاسکتا ہے ۔
لہٰذا K4 کا منصوبہ جب تک مکمل نہیں ہوتا سندھ حکومت کو ہنگامی بنیادوںپر
ویجیلنس کمیٹیاں بنا کر جس میں عام شہریوں کی نمائندگی بھی ہو پانی کی چوری کو روکا
جاسکتا ہے ، عوام کو بھی ووٹ کی پرچی کے ساتھ انصاف کرنا ہوگا نااہل لوگوں کو
منتخب کرکے اپنے بنیادی مسائل میں اضافہ نہ کریں۔
0 Comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔