کراچی ( عبدالوہاب اعوان) صحافیوں کو صحافت کرنی چائیے اگر خدمت کا جذبہ ہے تو اس کے لیے این جی اوز موجود ہیں۔ صحافت کے دوران اگر خدمت ہوجائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ ڈیجیٹل میڈیا ایک سمندر ہے جہاں آپ کو اپنی پہچان خود بنانی ہے اس کے لیے سب سے اہم چیز آپ کا مضبوط کا نٹکٹ کا ہونا ضروری ہے اگر آپ کا مضمون ہی اچھا نہیں ہوگا تو آپ اس سمندر میں ڈوب جائیں گے۔ صحافیوں کو سوشل میڈیا سے نیوز لیتے وقت ہمیشہ احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے ہر چیز کو باریکی سے دیکھنا ہوتا ہے اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو ممکن ہے وہ کسی کے ہاتھوں مس یوز ہوسکتا ہے۔ ان خیالات کا اظہار سینئر صحافی وکراچی پریس کلب کے سابق سیکریٹری اور اے آر وائے نیوز کے سینیئر پروڈیوسر ارمان صابر نے پاکستانی ہیروز فاﺅنڈیشن اور پاک مائنز لمیٹڈ کے تحت پسٹن کالج میں منعقدہ ایک روزہ ڈیجیٹل میڈیا اور انویسٹیگیشن رپورٹنگ ورکشاپ سے بحیثیت مہمانان خصوصی خطاب کرتے ہوئے کیا۔ میڈیا ورکشاپ کے شرکاءسے خطاب کرتے ہوئے ارمان صابر کا کہنا تھا کہ اجکل ڈیجیٹل میڈیا کا دور ہے اور ہم اپنی کم علمی کے باعث اس سے بھرپور استفادہ حاصل نہیں کر پاتے۔ اگر بھرپور معلومات کہ ساتھ ہم سوشل میڈیا کا استعمال کریں تو ہم اس سے بہتر آمدن کا زریعہ بھی بنا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ترقی یافتہ ممالک میں ڈیجیٹل میڈیا کو خاص اہمیت حاصل ہے جبکہ ہم یہاں صرف اپنی پوسٹ اور پھر ان کے لائیک کے انتظار میں رہتے ہیں۔ انویسٹیگیشن رپورٹنگ سے متعلق خطاب کرتے ہوئے سینیر صحافی اور امت اخبار کے ڈپٹی چیف رپورٹر سید نبیل اختر نے کہا کہ آج کل صحافیوں کو خبر کے لیے زیادہ محنت نہیں کرنا پڑتی کیوں نہ کہ ان کے پاس سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع موجود ہوتے ہیں تاہم اس میں ایک خرابی یہ ہے کہ اس سے خبر صرف وہ ہی رہتی ہے جو ہمیں دکھائی جارہی ہوتی ہے۔ ہم اس پر محنت نہیں کرتے اور باز اوقات اس طرح کی خبر ہمارے لیے باعث مصیبت بن جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پہلے صحافی ہر خبر کی باریکی تک جاتا تھا اور اس کی باریکیوں کو جانچ کر پھر خبر پر کام کرتا تھا جبکہ آج کل ایسا نہیں ہوتا۔ آج ہر صحافی کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ خبر دینے کی دوڑ میں شامل رہتے ہیں اور یہہں سے خرابی پیدا ہوتی ہے ۔سید نبیل اختر نے کہا کہ انویسٹیگیشن رپورٹنگ کے لیے آپ کا مطالعہ بہت ضروری ہے بغیر مطالعہ کہ آپ نہ تو صحافی بن سکتے ہیں اور نہ ہی آپ بہتر رپورٹنگ کر سکتے ہیں۔ انہوں نے پولیس کیسز اور صحافت کے کردار پر بھی روشنی ڈالی۔ اس موقع پر پاکستان رائٹرز کلب کے بانی اور روزنامہ جسارت کے سب ایڈیٹر عارف رمضان جتوئی نے بلاگرز کے سیکشن کے سلسلے میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بلاگ لکھنے اور پڑھنے سے جہاں آپ کے علم میں اضافہ ہوتا ہے وہیں آپ اس کو آمدن کا زریعہ بھی بنا سکتے ہیں۔ انہوں نے فیس بک کے بانی مارک زرگ برگ کی کہانی بیان کرتے ہوئے کہا کہ وہ بھی ایک بلاگر تھے اور فیس بک کا آئیڈیا بھی ان کا تھا اگر وہ اپنے بلاگ کو دوسروں تک پہنچانے کی جستجو نہ کرتے تو آج ہم فیس بک جیسے اہم سوشل میڈیا پلیٹ فارم سے محروم ہوتے۔ عا دے سکتے ہیں۔ آخر میں مہمان خصوصی ڈائریکٹر پاک مائنز و پاکستانی ہیروز فاﺅنڈیشن کے صدر رضوان تنولی نے اپنے مختصر خطاب میں کہاکہ میں دنیا کے کئی ممالک کا بزنس ٹور کربلا ہوں اور وہاں کے صحافیوں اور صحافت کو دیکھتا رہتا ہو مگر جن حالات میں پاکستانی صحافی کام کررہے ہیں وہ قابل تعریف ہے کیوں کہ ان کے پاس وہ سہولیات نہیں جو باہر کے صحافیوں کو میسر ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ میں صرف یہ کہوں گا کہ صحافت کریں مگر اپنے ضمیر کو زندہ رکھ کر کریں کیوں کہ ہر شعبے میں ایمانداری بہت ضروری ہے اور پھر یہ شعبہ تو ویسے بھی بہت مقدس ہے لہزا آپ اگر اپنے پیشے سے ایمانداری کریں گے تو کوئی شک نہیں کہ آپ ایک کامیاب صحافی کہلائیں گے۔ تقریب کے منصبی فرائض سینیئر صحافی حماد حسین اور عارف میمن نے سر انجام دیے۔ تقریب کے آخر میں شرکاءمیں سرٹیفیکیٹ تقسیم کیے گئے۔
🔴 صفحہ دیکھنے والے
🔴 تعلیمی نتائج
🔴 مزید
🔴 رابطہ فارم
Ad Space
Ads
Ad Banner
0 Comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔