کراچی: کراچی پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ کراچی یونیورسٹی میں کنفیوشس انسٹیٹیوٹ کے قریب ایک سال قبل چینی اساتذہ کو خاتون خودکش بمبار کے ذریعے نشانہ بنانے کا منصوبہ تیار کرنے والے کالعدم تنظیم کے دو ارکان کو گرفتار کرلیا ہے
سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) ملیر حسن سردار نیازی نے اپنے دفتر میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ شاہ لطیف ٹاون میں 29 مارچ کو پولیس موبائل کے قریب ہینڈ گرینڈ سے حملہ کیا گیا تھا جہاں اہلکار محفوظ رہے تھے لیکن گاڑی کو جزوی طور پر نقصان پہنچا تھاانہوں نے کہا کہ اس کے بعد کالعدم تنظیم بلوچستان لبریشن لبرٹی (بی ایل ایف) کے ’میجر‘ گوہرام بلوچ نے سوشل میڈیا کے ذریعے پولیس پر ہینڈ گرینیڈ حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی واقعے کی سی سی ٹی وی فوٹیج میں بھی دکھاگیا تھا کہ ملزمان 2 موٹرسائیکلوں پر سوار تھے اور پولیس پر حملہ کیا اور اس حولے سے پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے تفتیش کر رہے تھے
ایس ایس پی ملیر کا کہنا تھا کہ آج ہمیں ایک کامیابی ملی ہے اور دو ملزمان کو گرفتار کرلیا گیا ہے، جن کی شناخت مراد اور وارث کے نام سے ہوئی ہے ان کا کہنا تھا کہ گرفتار ملزمان لیاری میں رہائش پذیر تھے اور کالعدم تنظیم بی ایل ایف سے منسلک تھے
حسن سردار نیازی نے کہا کہ گرفتار ملزمان بی ایل ایف کمانڈر علی حسن سینگو کے لیے کام کر رہے تھے اور دونوں ملزمان اس کمانڈر کے ساتھ گزشتہ 8 ماہ سے رابطے میں تھے ان کا کہنا تھا کہ ملزمان مختلف مقامات پر دہشت گردی کی کارروائی کے لیے جاسوسی کر رہے تھے
سینئر پولیس افسر نے بتایا کہ گرفتار ملزمان کراچی میں چینی شہریوں کو نشانہ بنانے کا منصوبہ بنا چکے ہیں اور اس مقصد کے لیے انہوں نے جاسوسی بھی مکمل کر لی تھی ملیر پولیس کے سربراہ نے کہا کہ وہ پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) سبوتاژ کرنے کا منصوبہ بنا رہے تھے
انہوں نے کہا کہ علی حسن سینگو گرفتار ملزمان کو پہلے ہی 5 گرنیڈز اور 80 ہزار روپے دے چکے تھے ایس ایس پی ملیر حسن سرداری نیازی نےدعوا کیا کہ کالعدم تنظیم بی ایل ایف کمانڈر علی حسن سینگو ایران میں چھپا ہوا ہے انہوں نے کہا کہ ملزمان کے بارے میں خدشہ تھا کہ وہ دو روز بعد بلوچستان کے علاقے تربت جائیں گے اور 26 اپریل کو واپس آنے والے تھے لیکن وہ گرفتار ہوچکے ہیں
ایس ایس پی ملیر نے نشان دہی کی کہ 26 اپریل کو کراچی یونیورسٹی میں چینی شہریوں پر خاتون شاری بلوچ کے خودکش حملے کا ایک سال مکمل ہو رہا ہے ان کا کہنا تھا کہ ملزمان شاری بلوچ کے یونیورسٹی میں کیے گئے خود کش حملے سے جڑے دہشت گردی کی کارروائیوں کی منصوبہ بندی کر رہے تھے
یاد رہے کہ 26 اپریل 2022 کو دو بچوں کی والدہ 31 سالہ شاری بلوچ نے کراچی یونیورسٹی کے اندر کنفیوشس انسٹیٹیوٹ کے قریب گاڑی کو خودکش حملے کا نشانہ بنایا تھا، جس کے نتیجے میں چین سے تعلق رکھنے والے 3 اساتذہ اور ایک مقامی ڈرائیور جاں بحق ہوئے تھے کالعدم بلوچستان لبریشن آرمی نے تعلیمی ادارے کے غیرملکی اساتذہ پر حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی اور کہا تھا کہ یہ اس گروپ کی خاتون کا پہلا خودکش حملہ ہے۔
0 Comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔