وزارتوں کے مزے لوٹنے اور بلاول بھٹو زرداری کو پوری دنیا میں وزارت خارجہ پر متمکن اور متعارف کرا کے آصف علی زرداری نے بڑی آسانی سے کہہ دیا ہے حکومت ہماری نہیں ہماری حکومت تب ہو گی جب بلاول بھٹو
ملک کے وزیراعظم ہوں گے،انہوں نے بلاول بھٹو کو وزیراعظم بنتا دیکھنے کو
اپنی زندگی کی سب سے بڑی خواہش قرار دیا ہے، جوں جوں حکومت کی مدت
پوری ہونے کا وقت آ رہا ہے۔ آصف علی زرداری خود کو اس سیٹ اَپ سے
علیحدہ ظاہر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس کے بنانے اور چلانے میں اُن کا
سو فیصد کردار شامل ہے چونکہ ایک سال کے عرصے میں حکومت ہر شعبے اور
ہر محاذ پر بری طرح ناکام ہوئی ہے اس لئے پیپلزپارٹی یہ بلا اپنے گلے لینے کو تیار
نہیں اس سے مسلم لیگ(ن) کے رہنماؤں کو اندازہ ہو جانا چاہئے کہ آصف
علی زرداری کس مہارت کے ساتھ ڈبل گیم کھیل رہے ہیں،یعنی باغباں بھی
خوش رہے اور خوش رہے صیاد، والی کیفیت ہے۔حکومت میں شامل ہونے
کے باوجود یہ کہنا کہ ہماری حکومت نہیں یہ جرأت صرف آصف علی زرداری
ہی کر سکتے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف اس پر آصف
علی زرداری سے شکوہ بھی نہیں کر سکتے کیونکہ اُن کی حکومت کا دارومدار ہی پیپلزپارٹی
کے ووٹوں پر ہے۔کیا آصف علی زرداری کی اس بات پر عوام یقین کر لیں گے؟
کیا وہ دیکھ نہیں رہے کہ پیپلزپارٹی نے حکومت یں شامل ہو کر اور اہم وزارتیں لے
کر اَن گنت مفادات لئے ہیں۔پیپلزپارٹی کے ایک رہنما کہہ رہے تھے کہ پیپلزپارٹی
نے حکومت میں شامل ہو کر ایسی وزارتیں نہیں لیں جن کا عوام سے براہ راست
تعلق ہو۔ یہ ساری وزارتیں یعنی دفاع، داخلہ، خزانہ اور خود وزارتِ عظمیٰ مسلم
لیگ(ن) کے پاس ہیں۔گویا وہ وزارت خارجہ، وزارت صحت اور وزارت انسانی
حقوق کو اہم وزارتیں ہی نہیں سمجھتے۔ اگر یہ اتنی ہی غیر اہم وزارتیں تھیں تو انہیں
لیا ہی کیوں،ویسے ہی حکومت کی غیر مشروط حمایت جاری رکھتے۔شیخ رشید احمد نے
کہا ہے وزارت خارجہ پر بلاول بھٹو کو بٹھانے کا ملک کو کیا فائدہ ہوا ہے، وہ پانچ ڈالر کی
امداد یا سرمایہ کاری نہیں لا سکے، الٹا سوا ارب روپیہ اُن کے دوروں پر خرچ ہو گیا، ویسے
یہ حساب کتاب تو ہونا چاہئے کہ بلاول بھٹو زرداری کے بے تحاشہ دوروں کا پاکستان
کو کیا فائدہ ہوا، کیوں انہوں نے اتنے دورے کئے اور ماضی کے وزرائے خارجہ کیا
بے وقوف تھے کہ اتنے دورے نہیں کر سکے، صاف لگ رہا ہے کہ ایک منصوبہ بندی
کے تحت بلاول بھٹو زرداری کو عالمی سطح پر متعارف کرایا گیا تاکہ مستقبل میں جب
وزیراعظم کے منصب پر اُن کی تقرری کا موقع آئے تو کسی کو اجنبی نہ لگیں۔
ہیں۔ جنوبی پنجاب میں یہ افواہیں بھی گرم ہیں کہ جہانگیر ترین اور سابق گورنر پنجاب چودھری محمد سرور جو اپنا گروپ بنا رہے ہیں وہ پیپلزپارٹی سے الحاق کر کے انتخابات میں حصہ لے گا،جس طرح2018ء کے انتخابات میں جہانگیر ترین نے صوبہ جنوبی پنجاب محاذ والوں کو ساتھ ملایا تھا اسی طرح یہاں کے بڑے سیاسی گروپوں اور سیاسی شخصیات کو ساتھ ملا کے وہ بڑی اکثریت حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔تاہم ابھی تک یہ صرف اندازے ہیں۔بلاول بھٹو کو وزیراعظم بنانے کے لئے پیپلز پارٹی کے پاس قومی اسمبلی میں کم از کم اپنی سو نشستیں ہونی چاہئیں۔ اس کے بعد وہ مختلف گروپوں اور جماعتوں سے اتحاد کر کے حکومت بنانے کی پوزیشن میں آئے گی۔ یہ تو نہیں ہو سکتا کہ پیپلزپارٹی کے پاس50 نشستیں ہوں اور وہ وزارتِ عظمیٰ مانگ لے۔ موجودہ حالات میں کہ جب تحریک انصاف قومی اسمبلی میں اچھا خاصا شیئر لے سکتی ہے پیپلزپارٹی کا بڑی کامیابی حاصل کرنا کسی معجزے سے کم نہیں ہو گا۔
پھر حکومت کا عرصہ بھی کم تھا، لیکن بلاول بھٹو زرداری کو انتخابات کے بعد ایک نئی حکومت کا سربراہ بنانا خود مسلم لیگ(ن) کے لئے کیسے قابل قبول ہو گا؟ بظاہر ایسی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی کہ بلاول بھٹو زرداری ملک کے وزیراعظم بن سکیں مگر آصف علی زرداری ایک باپ بھی ہیں اور ہر باپ کی خواہش ہوتی ہے کہ اُس کا بیٹا وہ سب کچھ حاصل کر سکے جو وہ حاصل نہیں کر سکا اس لئے اسے ایک باپ کی خواہش سمجھا جائے جس کے پورے ہونے کا انحصار معجزات پر تو ہے البتہ زمینی حقائق میں اس کے آثار دور دور تک دکھائی نہیں دے رہے۔
موجودہ حالات میں تو آصف علی زرداری کی یہ خواہش بڑی انہونی لگتی ہے کہ وہ بلاول بھٹو زرداری کو ملک کا وزیراعظم بنانا چاہتے ہیں۔اس وقت پیپلزپارٹی مقبولیت کے لحاظ سے ملک کی تیسری جماعت بن کر رہ گئی ہے۔سندھ میں بھی اُسے آئندہ انتخابات میں بڑے چیلنجوں کا سامنا ہو سکتا ہے جبکہ پنجاب،خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں اُس کی عوامی مقبولیت پر ایک بڑا سوالیہ نشان لگا ہوا ہے۔پیپلزپارٹی اگر موجودہ سیٹ اپ سے خود کو بری الذمہ قرار دے بھی لے تو مجموعی طور پر اُن کے بارے میں عوام کے اندر وہ جوش و جذبہ موجود نہیں جو کسی جماعت کو انتخابات میں کامیابی کے لئے درکار ہوتا ہے۔ پنجاب میں تو پیپلزپارٹی کی منظم تنظیم ہی موجود نہیں۔ پورے پنجاب میں صرف دو شخصیات متحرک نظر آتی ہیں ایک سید یوسف رضا گیلانی اور دوسرے مخدوم احمد محمود، ان دونوں کا تعلق جنوبی پنجاب سے ہے۔ اپر پنجاب میں کیا تنظیم ہے؟ کسی کو کچھ پتہ نہیں۔جنوبی پنجاب میں اگرچہ پیپلزپارٹی کا تھوڑا بہت ووٹ بنک موجود ہے اور چند ایک نشستیں بھی مل جاتی ہیں مگر ان سے بلاول بھٹو زرداری کو وزیراعظم بنانے کا خواب دیکھنا بڑی خوش فہمی ہے۔ایک عام خیال یہ ہے کہ پیپلزپارٹی جنوبی پنجاب میں الیکٹیبلز کو ساتھ ملا کر نشستیں حاصل کر لے گی تاہم موجودہ حالات میں کہ جب تحریک انصاف کا گراف بہت بلند ہے ایسا ممکن نظر نہیں آتا کیونکہ الیکٹیبلز بھی کچھ دیکھ کر فیصلہ کرتے ہیں۔ جنوبی پنجاب میں یہ افواہیں بھی گرم ہیں کہ جہانگیر ترین اور سابق گورنر پنجاب چودھری محمد سرور جو اپنا گروپ بنا رہے ہیں وہ پیپلزپارٹی سے الحاق کر کے انتخابات میں حصہ لے گا،جس طرح2018ء کے انتخابات میں جہانگیر ترین نے صوبہ جنوبی پنجاب محاذ والوں کو ساتھ ملایا تھا اسی طرح یہاں کے بڑے سیاسی گروپوں اور سیاسی شخصیات کو ساتھ ملا کے وہ بڑی اکثریت حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔تاہم ابھی تک یہ صرف اندازے ہیں۔بلاول بھٹو کو وزیراعظم بنانے کے لئے پیپلز پارٹی کے پاس قومی اسمبلی میں کم از کم اپنی سو نشستیں ہونی چاہئیں۔ اس کے بعد وہ مختلف گروپوں اور جماعتوں سے اتحاد کر کے حکومت بنانے کی پوزیشن میں آئے گی۔ یہ تو نہیں ہو سکتا کہ پیپلزپارٹی کے پاس50 نشستیں ہوں اور وہ وزارتِ عظمیٰ مانگ لے۔ موجودہ حالات میں کہ جب تحریک انصاف قومی اسمبلی میں اچھا خاصا شیئر لے سکتی ہے پیپلزپارٹی کا بڑی کامیابی حاصل کرنا کسی معجزے سے کم نہیں ہو گا۔
0 Comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔