سابق وزیراعظم اور پی ٹی آئی چیئرمین عمرا ن خان فرماتے ہیں
"لوگوں کو ٹرسٹ کا مطلب ہی نہیں معلوم، کہ ٹرسٹ کیا ہوتا ہے؟
اور آپ کو شرم نہیں آئی ایک پردہ دار خاتون کی گرفتاری کا وارنٹ
نکال دیا، گھر میں آپ کے خواتین نہیں ہیں؟ یا آپ اتنے بے شرم
اور بے غیرت ہیں کہ آپ کی عورتوں سے کوئی ایسا کرے اور آپ
کو فرق ہی نہ پڑے۔"
تو جناب جواب عرض ہے، کیا تمہارے، شوہر اور بچوں کو چھوڑ کر
عدت کے دوران اپنی ہی بیٹی کے یار کے ساتھ بھاگی ہوئی، جادو
گرنی اہلیہ آسمان سے اتری ہے، کہ کرپشن میں تمہاری شریک ہو، مگر
اس پر نہ کیس بنے، نہ تحقیقات کے لئے بلائی جائے، کیا آصف علی
زرداری کی بہن فریال، اور میاں نواز شریف کی بیٹی مریم پر مقدمات
نہیں بنے؟ کیا انہیں تحقیقات کے لئے نہیں بلایا گیا؟ کیا وہ مہینوں
قید میں نہیں رہیں؟
سیدھی سادھی بات ہے، اگر کرپشن کرو گے تو جواب تو دینا پڑے
گا، خواہ کسی کی بھی بہن ہو، بیٹی ہو یا بیوی۔ مجرم قانون کی نظر میں
مجرم ہی ہوتا ہے خواہ مرد ہو یا عورت۔ یہ پاکستان یا دنیا کے کونسے
قانون میں ہے کہ عورت اگر جرم کرے یا شریک جرم ہو تو اس پر
نہ کیس بنایا جاسکتا ہے،نہ تحقیقات کے لئے بلایا جاسکتا ہے اور نہ
سزا ہوسکتی ہے؟
جناب قوم کو بے وقوف بنانا اور دوسروں کو بے وقوف یا کم علم
سمجھنا چھوڑیں، آپ اس سے پہلے بھی متعدد بار میں کہہ چکے کہ لوگوں
کو تو پتہ ہی نہیں، جیسے کہ عقل کل تو محض آپ ہیں، جناب ہمیں پتہ ہے
ٹرسٹ کیا ہوتا ہے اور کیسے کیسے ٹرسٹ ہوتے اور کیوں بنائے جاتے
ہیں، آئیے ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ دنیا میں ٹرسٹ کے ذریعے فراڈ کیسے
ہوتا ہے۔
جدید دور میں آپ اگر کالے دھن کو سفید کرنا چاہیں تو اس کا سب
اسے آسان ذریعہ این جی او یا ٹرسٹ ہے، عطیات کے نام پر رشوت
اور کالے دھن کا پیسہ ٹرسٹ کے اکاونٹس میں وصول کریں، دکھاوے
کے لئے کچھ فلاحی کام کریں اور جمع ہونے والی رقم کا خطیر حصہ انتظامی
اخراجات، تنخواہوں, سامان کی خریداری اور ٹھیکوں کی مد میں اپنی،
اپنے خاندان اور دوستوں کی جیبوں میں منتقل کر دیں۔ دکھاوے کے
طور پرایک عد"کار خیر" کی تصویربنا کر دنیا کو دکھاتے پھریں اور مزید پیسے
اکٹھا کریں۔ اس موضوع پر لارڈز آف پاورٹی نامی کتاب کا مطالعہ مفید
ہوگا۔
عمران خان نے اپنی پوری زندگی یہی فراڈ کیا ہے، شوکت خانم سمیت
تقریباً12 مختلف ٹرسٹ دنیا بھر میں رجسٹر کر وا رکھے ہیں، جن میں
جب تک حکومت میں نہ تھا چندہ، زکوات، خیرات کے نام پر پیسے لیتا
رہا، سیاست میں آنے کے بعد پارٹی ٹکٹ اور دیگر کاموں کے لئے
رشوت ان ٹرسٹ اکاونٹس میں بطور عطیہ جمع کروائی جاتی رہی،اور
حکومت میں آ کر بڑے بڑے منصوبوں اور مالی فوائد پہنچانے
کی مد میں لی گئی رقوم ان اکاونٹس میں جمع کروائی گئیں۔ اگر آپ
عمران خان کے ذرائع آمدن اور اس کے شاہانہ طرز زندگی کا موازنہ
کریں تو یہ بات بہت حد تک عیاں ہو جائے گی کہ ان
دونوں میں زمین آسمان کا تفاوت ہے، یعنی آمدن سے زائد اخراجات
کا کیس ہے اور اسی فرق پر گزشتہ ادوار میں کئی سیاسی رہنماوں پر
مقدمات بنائے گئے اور کچھ کو سزائیں بھی ہوئی ہیں۔
عمران کا طریقہ واردات اتنا بہترین ہے کہ یہ اس حد تک درست
کہتا ہے کہ اس واردات کو بہت کم لوگ سمجھ سکتے ہیں، کہ دراصل
ہو کیا رہا ہے؟ فرض کریں امریکہ میں رجسٹرڈ ٹرسٹ اکاونٹ میں پیسے
جمع ہوں تو پاکستان میں اس کا کوئی ریکارڈ ہی نہیں ملے گا، کوئی ادارہ
چھان بین ہی نہیں کرسکتا کہ کتنے جمع ہوئے، کن سے کئے گئے اور
کہاں خرچ ہوئے، اور اِس امریکی اکاو نٹ سے اخراجات کے نام
پر ایک خطیر رقم خرد برد کرکے کچھ رقم خیراتی کاموں کے نام پر
پاکستان منتقل کی جائے، تو نہ امریکہ میں ٹیکس لگے گا نہ پاکستان میں،
اور پاکستان میں پھر انتظامی خرچوںکی مد میں مزید رقم ہڑپ
کرکے، برائے نام بچا کچا کہیں لگائیں اور پھر اس کا ڈھول پیٹیں
اور مزید رقم جمع کریں۔
اس کی ایک مثال حال ہی میں عمران خان نے سیلاب زدگان
کے نام پر 3 ٹیلی تھونز میں 14 سو50 کروڑ جمع کرنے کا دعویٰ ہے،
پہلےرقم کے وعدے لئے، پھر میں امریکہ میں ایک نیا ٹرسٹ رجسٹر
کرکے رقم وہاں کے اکاونٹ میں جمع کروائی، اور پھر محض 460
کروڑپاکستان منتقل کی (یہ بھی دعویٰ ہے ثبوت نہیں دیتے) اور اس
میں سے 300 کروڑ کا خرچہ ظاہر کردیا (یہ بھی محض دعویٰ ہے بتاتے
نہیں کہ کہاںخرچ کی، نہ یہ بتاتے ہیں کہ بقیہ رقم جس اکاونٹ میں ہے
اور کب کہاں خرچ کی جائے گی۔
اب القادر ٹرسٹ کے نام پر عجب کرپشن کی غضب کہانی مختصر
ترین الفاظ میں سنیں۔ برطانیہ کے قومی ادارہ برائے جرائم نے
ملک ریاض کی غیر قانونی طور پر برطانیہ منتقل کی گئی 190 ملین پاونڈز
کی رقم ضبط کرنے کے بعدپاکستان کے حوالے کی، تو موصوف نے
جو اس وقت ملک کے وزیراعظم تھے پہلے ملک ریاض سے ایک
خفیہ معاہدہ کیا، اگر غلط نہیں تھا تو خفیہ کیوں؟ پھر اس خفیہ معاہدے
کی کابینہ سے معاہدہ دکھائے بغیر منظوری لے لی، اگر معاہدہ بدنیتی پر
مبنی نہیں تھا تو اپنی ہی کابینہ کو دکھایا کیوں نہیں؟ پھر 190 ملین
پاونڈز اس بدنیتی پر مبنی معاہدے کے تحت ملک ریاض کو لوٹا
دیئے، تاکہ وہ اسے سپریم کورٹ کی طرف سے کراچی بحریہ ٹاون
میں بے ضابطگیوں اور گھپلوں پر کئے گئے جرمانے کی مد میں
جمع کروائے، اس طرح ملک ریاض کو 190 ملین پاونڈز کا فائدہ
اور حکومتِ پاکستان کو 190 ملین پاونڈز نقصان پہنچایا گیا۔
اور یہاں سے وزیراعظم عمران خان کے جرم کی اصل
داستان شروع ہوتی ہے، بعد ازاں ملک ریاض کو پہنچائے گئے
اس مالی فوائد کے عوض رشوت کی مد میں لئے جانے والے کالے
اور غیرقانونی دھن کو جائز بنانے کے لئے سابق وزیر اعظم نے
اپنے اور اپنی جادوگر بیوی اور وکیلوں کے نام پر ایک ٹرسٹ بنایا
گیا، یعنی پہلے سودا ہوا ٹرسٹ بعد میں بنا، ایسا نہیں تھا کہ پہلے سے
یہ ٹرسٹ موجود ہو، یونیورسٹی کا کام ہو رہا ہو اور ملک ریاض سے لین
دین بعد میں ہوا ہو۔ یاد رہے وزیراعظم آفس میں ہوتے ہوئے کوئی
کاروبار یا ذاتی منفعت کا کام کیا ہی نہیں جا سکتا، یہ پہلا جرم ہے۔
دوسرا جرم اس ٹرسٹ کے لئے ملک ریاض سے 5 ارب مالیت کی زمین
بطور عطیہ (رشوت) لی، اور ایک ارب روپے مالیت کی عمارت بنوائی
گئی ،رشوت لینا۔
اور پھر ملک ریاض سمیت دیگر لوگوں کو مختلف امور میں بطور وزیراعظم
نے جو فوائد پہنچائے،اس میں ملک ریاض کے پشاور سمیت مختلف شہروں
میں تعمیراتی منصوبوں کی مقامی اور صوبائی اداروں سے منظوری شامل تھی،
اس کے بدلے رشوت کی رقم بطور عطیات اس ٹرسٹ کے اکاونٹ میں جمع
کروائی گئی، یہ تیسرا جرم ہے۔
اور جب ٹرسٹ کے اکاونٹ میں پیسے آنے لگے تو اپنے اور بیوی کے علاو
دیگر لوگوں کو ٹرسٹ سے فارغ کردیا، تاکہ پیسوں پر کسی اور کا دعویٰ اور
کنٹرول یا انتظامی اختیار ہی نہ رہے۔
القادر ٹرسٹ اور اس کے زیر نگرانی چلنے والی یونیورسٹی رشوت کے
عوض ملنے والے کالے دھن کو سفید بنانے کے انتہائی شاطرانہ
منصوبے کے علاوہ کچھ نہیں، اس کا اندازہ اس سے لگائیں کہ عمران
کا دفاع کرنے والا کوئی دانشورآج تک نہ تو درج بالا قانونی نکات کا
کوئی جواب دیتا ہے، نہ یہ بتاتا ہے کہ یونیورسٹی میں طلبہ کتنے ہیں؟
کیونکہ اگر آپ کو یہ بتایا جائے کہ 6 ارب سے تعمیر ہونے والی اور
اربوں روپے کا چندہ اکٹھا کرنے والی یونیورسٹی میں کئی سال بعد
بھی دکھاوے کے طور پر محض چند طلبہ ہی زیر تعلیم ہیں۔ بس یہ کہہ کر
معاملے کو ٹالنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ٹرسٹ بنایا ذاتی فائدہ نہیں لیا،
یا یونیورسٹی بنانا کیا کوئی جرم ہے؟ معدے کو خفیہ رکھنے کے حوالے سے یہ عذر لنگ
تراشا جاتا ہے کہ معاہدہ ملک ریاض اور برطانوی ادارے کے درمیان
تھا، اس کو خفیہ رکھنا برطانیہ کی شرط تھی تو جناب پہلی بات ٹرسٹ
کے عمران خود چیئرمین اور بیوی ممبر ہیں یعنی ایک طرح سے وہی
مالک ہیں اور ان ہی کو فائدہ ہوا۔ دوسری بات اگر ذاتی فائدہ مقصود
نہیں تھا تو وزیراعظم پاکستان نے یہ یونیورسٹی حکومت کے زیر نگرانی
کیوں نہ بنوائی، اگر حکومت کو فائدہ پہنچایا ہوتا تو کچھ جواز بن سکتا تھا،
تیسری بات اگر معاہدہ برطانیہ اور ملک ریاض کے درمیان تھا تو پاکستانی
کابینہ سے منظوری کیوں لی گئی؟ اور اگر خفیہ رکھنا برطانیہ کی شرط تھی تو عوام
کا نہ بتاتے کابینہ کو تو بتاتے اور پھر چلیں مانا کابینہ کو بھی نہیں بتانا تھا
تو پی ٹی آئی کے تمام رہنماوں کے اس معاہدے کے بعد ملک ریاض
کی کرپشن پر بات کرنے سے کیوں روکا گیا؟ آخری بات کہ اگر رشوت
کے پیسوں سے مسجد بھی بنائی جائے تو وہ حرام ہی ہوگی، چاہے وہاں
امانت کے فرائض مولانا طارق جمیل ہی کیوں نہ ادا کررہے ہوں، کجا
یہ کہ ذاتی ٹرسٹ یا یونیورسٹی۔
یہ سن کر یقیناً آپ بھی یقیناً حیران ہوئے ہوں گے، اور سوال کریں
گے کہ اتنے قلیل تعداد طلبہ کے لئے تو ایک چھوٹا سا انسٹیٹوٹ میں
بھی کافی تھا یہ اربوں روپے کا پروجیکٹ کیوں اور پیسے دراصل جا
کہاں رہے ہیں؟ جواب ہے جناب یہ کالے دھن کو سفید کرنے اور
ریوڑیاں اپنے ہی اپنوں میں بانٹنے کا ایک شاندار منصوبہ ہے۔ اس
منصوبے کے نام پر لیا گیا پیسہ دراصل ان ملکی اور غیر ملکی دوستوں
کی جیب میں جا رہا ہے جنہیں نوازنے کے لئے اس پروجیکٹ میں
مختلف ناموں سے ملازمت دی گئی ہے اور اکثر تو گھر بیٹھے تنخواہ وصولتے
ہیں یا جن جو مختلف کاموں کے ٹھیکے دیئے جائیں گے، چاہے وہ کام
ملک ریاض جیسے کسی شخص نے بطور رشوت کیا ہو مگر ادائیگی اس
نام نہاد ٹھیکیدار کو ہوگی جسے نوازنا مقصود ہے۔ اور یہی لوگ پھر نمک
حلال کرنے کے لئے پروپیگنڈہ وار فیئر میں عمران کے حق میں جھوٹی گو
اہیاں اور تعریف کے پل باندھتے نظر آتے ہیں۔
یہ ہے القادر ٹرسٹ کے فراڈ کی کہانی اور یہ فراڈ مقصود چپڑاسی اور فالودے
اور قلفی والوں کے اکاونٹس میں جمع کئے گئے پیسوں کے فراڈ سے کہیں
بڑا اور منظم فراڈ ہے۔
میں بالعموم اپنی تحریر میں الفاظ سخت استعمال مگر ان کے چناومیں
انتہائی احتیاط برتتا ہوں، بالخصوص اگر کسی واقعہ کی طرف اشارہ یا تذکرہ
کرتا ہوں تو پوری ذمہ داری اور پبلک ڈومین یا عوامی احاطے میں موجود
معلومات کی بنیاد پر کرتا ہوں، کسی مفروضے یا کسی یوٹیوبر کی گفتگو کی بنیاد
پر نہیں۔
عمران خان کی بشری پنکی جادگرونی کی بیٹی کے ساتھ تعلقات اور
شادی کے حوالے سے خبریں پاکستان کے مین اسٹریم اخبارات اور
چینلز پر موجود ہیں۔
القادر یونیورسٹی کے حوالے سے تمام تر الزامات کا دستاویزی ثبوت
اور سیلاب زدگان کے حوالے سے جمع رقوم کی تفصیلات بھی باقاعدہ
عمران اور پی ٹی آئی کے اپنے ریکارڈ پر موجود دعووں پر مبنی ہے۔
میرے اس مضمون اور تمام دیگر تحریروں میں کوئی ایک بھی الزام یا
دعویٰ محض میری ذہنی اختراع یا سنی سنائی پر مبنی نہیں ہوتا۔ جسے
تحقیق، تصدیق یا رد کرنا ہو حکومتی اداروں کی شائع شدہ رپورٹس، اخبارات
یا چینل کا ریکارڈ چیک کرلے۔
و ما علینا الا البلاغ المبین
0 Comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔