کراچی( 50 نیوز ویب ڈیسک) سندھ حکومت کے ترجمان و مشیر قانون سندھ بیرسٹر مرتضی وہاب نے کہا ہے کہ پیپلزپارٹی اور اس کےوزیراعلی سندھ نے 2017کی متنازعہ مردم شماری منظور کرنے پر احتجاج کیااور پارلیمان کو ریفرنس بھیجا جبکہ پی ٹی آئی ایم کیوایم اور جی ڈی اے نےمتنازعہ مردم شماری منظور کرکے کم گننے کےمسائل کی بنیاد رکھی جماعت اسلامی بھی اس وقت خاموش رہی مگرمچھ کےآنسو بہانےوالے ایک طرف پیپلزپارٹی اور سندھ حکومت تنہا صوبےکےعوام کو مکمل و درست شمار کرانے کی جدوجہد عملی طور پر کررہی ہے وہ گزشتہ روز کراچی میں نیوز کانفرنس سے خطاب کررہے تھے ۔
بیرسٹر مرتضی وہاب کا مزید کہنا تھا کہ ڈیجیٹل سینسز کرانے کا فیصلہ پی ٹی آئی نے کیا ٹیبلٹ کا کوئی پروف ریکارڈ چیف سیکریٹری یا متعلقہ اے سی کے پاس نہیں ہیے اسد عمر ان افسران سے پوچھ لیں احماقانہ بیان دینے سے پہلے جو ریکارڈ اسلام آباد میں موجود ہےاس تک رسائی کسی صوبائی حکومت کے پاس نہیں جب یہ سینسز شروع ہوا تو پیپلز پارٹی نے اعتراض اٹھایا اسکے تمام تر خطوط اور شواہد موجود ہیں۔
ہم نے بار بار کہا کہ ریکارڈ کی تین کاپیاں ہوں ایک کاپی جو اسلام آباد جائے، ایک کاپی چیف سیکریٹری اور متعلقہ اے سی کے پاس جائے تاکہ اسد عمر جیسے لوگ اس طرح کا بیان نہیں دیں گزشتہ صبح بھی میٹنگ ہوئی وفاقی حکومت کی اس میں فیصلہ ہوا کہ کسی تحصیل میں ڈیڑھ ، ڈیڑھ فیصد اضافہ ہوا تو وہاں مزید گنتی نہ ہو وزیر اعلی سندھ نے دس اپریل کو خط لکھا ،دس مارچ، تین مارچ کو خط لکھا احسن اقبال صاحب کو وزیر اعلی نے وزیر اعظم کو بھی خط لکھےجب کچھ اچھا ہوتا ہے تو کہتے ہیں ہم نے کیا کچھ برا ہوتا ہے تو زمےدار پیپلز پارٹی کاو ٹھراتے ہیں یہ بھول جاتے ہیں ماضی میں انہوں نے کتنا گھناونا کردار ادا کیا ہے کس طرح 2017 کی مردم شماری منظور کرائی۔
بیرسٹر مرتضی وہاب کا کہنا تھا کہ ریگل چوک پر احتجاج کیا اور کہا کے مردم شماری کے خلاف ہیں آج بھی صرف پریس کانفرنس اور پریس کانفرنس کر رہے ہیں عوام کے سامنے دو قسم کی قیادت ہیں ایک قیادت کہتی ہے عمران خان کے خاطر اسمبلی کی رکنیت سے مستعفی ہوتے ہیں لیکن مرعات اور پارلیمنٹ لاجز نہیں چھوڑتےپھر عدالت جاکر کہتے ہیں ہمارا استعفی غلط منظور ہوا دوسری طرف میری پارٹی کا چئیرمین ہے وہ چھ مارچ کو کہتا ہے کہ اس وزارت کو چھوڑ دوں گا اگر سینسز کے پروسیز کو شفاف نہیں بنایا گیادوسرے وہ لوگ ہیں جو آپکو کہتے ہیں چھوڑ دیا اور عدالت کو کہتے ہیں استعفی غلط منظور کرلیا انہوں نے کہا کہ
2017 میں پیپلز پارٹی نے مشترکہ مفادات کونسل میں آواز اٹھائی کے سندھ کو ٹھیک طرح نہیں گنا گیا شاہد خاقان کے دور میں 2017 کا سینسز منظور نہیں ہوا۔
2018 میں عمران خان کی حکومت آئی لوگوں کی امیدیں تھیں ہماری بھی امید تھی مشترکہ مفادات کونسل میں یہ بات آئی تو ہم ایک طرف تھے پی ٹی آئی اور انکے اتحادی ایک طرف تھے ہم نے اعتراض کیا انکے سامنے، ہم نے کہا 48 نہیں 62 ملیں سے زائد کی آبادی ہے ہم نے بلوچستان کا بھی کہا کہ وہاں کی آبادی بھی ٹھیک نہیں عمران خان نے کمیٹی بنائی علی زیدی کو سربراہ بنایا اسکا امین الحق، فہمیدا مرزا کو کمیٹی میں ڈالا گیااس کمیٹی نے متنازع رپورٹ فائنل کی اور سندھ حکومت سے مشاورت نہیں کی ۔
2017 کے متنازع سینسز کو منظور کرنے کا فیصلہ کیا کمیٹی نے مشترکہ مفادات کونسل میں رپورٹ بھجوائی گئی مارچ 2021 میں اس رپورٹ کو منظور کرنے کا فیصلہ کیا صرف سندھ کے وزیر اعلی نے اس رپورٹ اور فیصلے کی مخالفت کی اس اجلاس میں اسد عمر بھی بیٹھے تھے اور متنازع سینسز کو منظور کیاپیپلز پارٹی نے اپنی اپیل پارلیمان کو بھجوائی اور مشترکہ اجلاس پارلیمان کا منعقد ہواپیپلز پارٹی نے اجلاس میں بھرپور احتجاج کیامتنازع سینسز کو پارلیمان سے منظور کروایا گیا اس پارلیمان میں جی ڈی اے، جماعت اسلامی، ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی بھی شامل تھی بیرسٹر مرتضی وہاب نے کہا کہ پی ٹی آئی نے لولی پاپ دی کے اگلی مردم شماری ڈیجیٹل کروائیں گے اسد عمر فرماتے ہیں کے وِزیر اعلی اس وقت اعتراض کر رہے تھے پھر بولے کے مردم شماری صوبائی حکومت کرتی ہے بھائی کتنے بیوقوف ہیں آپ عقل کے اندھوں ریکارڈ جمع کرکے اسلام آباد بھجوا دیا جاتا ہےریکارڈ صوبہ جمع نہیں کرتا ادارہ شماریات کرتا ہےڈیجیٹل سینسز کرانے کا فیصلہ پی ٹی آئی نے کیا لوگوں کو یہ بتانے کی ضرورت ہے سرکاری سطح پر خط و کتابت کون کر رہا ہے اور مگر مچھ کے آنسو کون بہا رہا ہے ؟ سندھ کی آبادی جو بڑھی ہے وہ سندھ حکومت کی کوششوں کی وجہہ سے ہے یہ مجبور ہوئے ہیں ہمیں گننے میں ایم کیو ایم والے پہلے کہہ رہے تھے کہ وزیر اعلی کو ڈیجیٹل سینسز پر کیا مسئلہ ہے پھر دو ماہ پریس کانفرنس کر کے کہا کے ہاتھ ہوگیا جب یہ ساری جماعتیں کہتی ہیں کہ 2017 کی مردم شماری ٹھیک نہیں تھی تو اسکو کیوں منظور کروایا گیا ؟
0 Comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔